counter easy hit

حسن کی معراج

Beauty

Beauty

تحریر: محمد شہباز
لوگ کہتے ہیں کہ چہرے پڑھے جا سکتے ہیں اور چہرے ہی انسان کی اندر کی کیفیت بھی بیان کر دیتے ہیں۔ اب یہ پڑھنے والے پہ منحصر ہوتاہے۔ کہ وہ کس انداز سے پڑھتا ہے اور اگر اسے اس کے اندر کی تحریر اچھی لگتی ہے تو پھر وہ اسے پرکھ بھی لیتا ہے۔ وگرنہ وہ تحریر بھی باقی عام تحریروں کی طرح ضائع کر دی جاتی ہے۔ مگر جب وہ تحریر ضائع کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ مالک ِ تحریر کی زندگی میں بھی چند نقصانات داخل کر دئیے جاتے ہیں۔

ان نقصانات سے بچنے کے لئے چند احباب مصنوعی رنگ و نمائش کی چادر اوڑھ لیتے ہیں ۔ حلقہ ارباب ذوق کی محفل میں اْس خوبصورت اور نفیس چادر کو حْسن کا نام دیا جاتا ہے۔اب بنائو سنگھار کا مرحلہ اپنے آخری مراحل میں ہوتا ہے ۔ اور جو اوپر سے نظر آتا ہے لوگ اسے ہی حسن کا نام دے دیتے ہیں۔ مراحل تو ہر چیز کے ہوتے ہیں جو اْس چیز کی اہمیت کو ہر مقام پر واضح کرتے ہیں کہ اس چیز کے بنانے کا مقصد اور ترقی کی وجہ کیا ہے۔ جس طرح انسان کے اندر دو سانس ہیں ایک اوپر کا سانس اور ایک نیچے کا سانس۔ جب تک یہ دونوں سانس آ جا رہے ہیںتب تک یہ زندگی کی علامت ہیں اور انسان کی موت اس وقت ہوتی ہے جب اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ جاتا ہے۔ یعنی جب دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح انسان کا حسن بھی دو قسم کا ہے۔ ایک انسان کا ظاہری حسن اور دوسرا باطنی حسن۔ جب تک یہ دونوں حسن حَسین ہیں اْس وقت تک انسان کا حسن قائم رہتا ہے بلکہ بڑھتا بھی رہتا ہے۔ مگر جب ان میں سے کوئی ایک حسن بھی تبدیل ہوتا ہے تودوسرا بھی اپنے مقام پر نہیں رہتا۔ اور اس میں بھی کمی یا بیشی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ کسی مقام پر تو حسن کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے یا پھر یہ ہمیشہ کے لئے امر بھی ہو سکتا ہے۔ ظاہری حسن کی حفاظت تو ہم اپنے لئے کرتے ہیں کہ ہمیں دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے۔ معاشرے میں ہمارا معیار کیا ہو گا۔ کوئی ہمیں اپنی محفل میں بیٹھنے کی اجازت بھی دے گا یا نہیں۔جبکہ باطنی حسن دوسروں کے لئے ہوتا ہے کہ ہم خود لوگوں کے ساتھ کیسے ہیں کیا ہم بھی کسی کی قدر کرتے ہیں یا صرف اپنے ہی بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔لوگ تو زیادہ تر ظاہر پر ہی جاتے ہیں کہ واہ کیا شخصیت ہے۔۔۔ کیا اندازِ زندگی ہے جناب کا !مگر باطنی حسن وہ حسن ہے جو خود بتاتا ہے کہ دیکھ میں کتنا حسین ہوں مجھے لوگ کتنی التجائیں کر کے مانگتے ہیں مگرمیں ہر کسی کی قسمت میں نہیں ہوتا۔ میں صرف انہی کو ملتا ہوں جو میری طلب کرتے ہیںاور پھر پا لینے کے بعد میری قدر کرتے ہیں۔

ظاہری حسن کو دکھاوے اور ادائوں سے پرکھاجاتا ہے مگر باطنی حسن کو پرکھنے کا آلہ انسان کا اخلاق ہے۔ جس کا مرتبہ اخلاق و اخلاص جس قدر بلند ہو گاوہ اْسی قدر حَسین ہو گا۔کوئی شخص چاہے وہ جس قدر اعلیٰ لباس سے مزّین ہو اور جس قدر اعلیٰ رنگ و نسل کا ہو ۔ اگر اس کا رویہ غریب کے ساتھ ، یتیم کے ساتھ ، مزدور کے ساتھ یا اپنے سے کم کسی بھی چھوٹے طبقے کے ساتھ اچھا نہیں ہے تو وہ بالکل بھی اعلیٰ شخصیت کا حامل نہیںہے۔ وہ بالکل بھی حَسین نہیں ہے۔ ظاہر باطن کا وضو ہوتا ہے۔ لیکن اگر وضو کر کے عبادت ہی نہ کی جائے تو پھر اْس وضو کا کیا فائدہ ہو گا۔ اسی طرح اگر صرف ظاہر کی صفائی ہی کی گئی اور باطن کو نظر انداز کر دیاگیا تو پھر مقصد پورا نہیں ہو گا۔ جب بھی کوئی اپنے اخلاق سے گِرتا ہے تو پھر اس کا حسن بھی نڈھال ہو نا شروع ہوجاتا ہے اور دھیرے دھیرے اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

حضرت یوسف نے جس طرح اپنے اخلاق کی حفاظت فرمائی تو اس طرح وہ حسن کی معراج پر پہنچے اور جب زلیخا نے اپنے حسن کا ناجائز فائدہ اٹھایا تو اسی طرح پھر اس کے اخلاق کی وجہ سے اْس کے حْسن کی بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے موت ہو گئی۔ اور حضرت یوسف تو آج بھی حَسین ہیں۔اور ان کا حسن ہمیشہ کے لئے امر ہے۔

اگر آج ہم لوگ بھی صرف ظاہر کے بنائو سنگھار میں صرف دکھاوے کے لئے ہی لگے رہیں اور ہمارا رویہ اور اخلاق اچھا نہ ہواتو پھر ہماری بھی موت ہوگی اور لوگ ہمیں بھی اچھے الفاظ میں یاد کرنے کی بجائے دھتکارا کریں گے۔ کوئی بھی اگر حْسن چاہتا ہے تو وہ اپنے اخلاق کو بہتر کر ے اور خود کو دوسروں کے لئے مدد گار ثابت کرے دوسروں کے لئے آسانیوںکا سبب بنے نا کہ کانٹے بچھانے کا موجب ۔حَسین وہی ہے جس کا اخلاق اچھا ہے اور جو جس قدر اعلیٰ اخلاق کا حامل ہے وہ اْسی قدر حَسین ہے ۔ کیونکہ بہتر اخلاق ہی درحقیقت حْسن کی معراج ہے۔

Muhammad Shehbaz

Muhammad Shehbaz

تحریر: محمد شہباز