ہمیشہ کی پریکٹس ہے، میں ریکارڈنگ کے بعد پریس کلب شملہ پہاڑی کی طرف جاتا ہوں، یوٹرن لے کر پھر واپس ڈیوس روڈ، وہاں سے مال روڈ پر بائیں ہاتھ مڑ کر نہر کنارے اور سیدھے گھر لیکن اس بار نجانے کیا ہوا کہ میں دائیں کی بجائے بائیں مڑا، شملہ پہاڑی کا چکر بلکہ یوں کہیں کہ آدھا چکر کاٹ کر اس سڑک پر جا نکلا جس پر ریڈیو پاکستان کی عمارت ہے۔ شاید اس سڑک کو اب بھی ایمپریس روڈ ہی کہتے ہیں۔کون جانے عقل اور تاریخ کے اندھوں نے اس سڑک کا نام بھی تبدیل کردیا ہو لیکن جو بھی ہو……. میں ریڈیو پاکستان لاہور کی اس عمارت کے سامنے کھڑا تھا جہاں کبھی دن رات میلہ لگا رہتا……تخلیق کاروں، فنکاروں اور ہنرمندوں کا میلہ اور آج یہ عمارت آسیب زدہ دکھائی دے رہی تھی۔شاید یہی زندگی ہے جس کے ہر موڑ پر میلے لگتے اور پھر اجڑ جاتے ہیں کہ ہر میلہ اجڑنے کے لئے ہی لگتا۔ رونقیں رخصت ہوجاتی ہیں صرف حسرتیں اور ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ یہ جو کرۂ ارض ہے ناں جسے دنیا کہتے ہیں، یہاں بھی کروڑوں ا ربوں سال سے اک میلہ لگا ہوا ہے جو کبھی لگتا اور کبھی اجڑتا ہے اور جس دن یہ میلہ مکمل طور پر اجڑ جائے گا، سب کچھ لپیٹ اور سمیٹ دیا جائے گا۔ اسے قیامت کہتے ہیں جس کی لگاتار ریہرسل کو زندگی کہتے ہیں۔میں ریڈیو پاکستان کے بالکل سامنے اپنی میں بیٹھا جانے کیا کیا کچھ سوچ رہا تھا۔ کبھی یہ عمارت میرے لئے ’’سیکنڈ ہوم‘‘ جیسی تھی اور یہاں کام کرنے والوں کی اکثریت فیملی ممبرز جیسی، جہاں شاعری ہوتی، دھنیں بنتیں، گیت گونجتے، علمی بحثیں ہوتیں، آج سکوت مرگ طاری تھا؎اب یہاں کوئی، کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گاایک کینٹین آفیشل ریڈیو کے اندر تھی، دوسرا کھوکھا پرائیویٹ اس عمارت کے مین گیٹ کے ساتھ والی دیوار کے پہلو میں۔ ریڈیو کی کینٹین پر ادھار جب حد سے گزر جاتا تو اس فائیو سٹار کھوکھے کے دروازے’’کھل جا سم سم‘‘ کے بغیر کھل جاتے بلکہ سچ یہ کہ کبھی بند ہی نہیں ہوتے تھے کیونکہ کھوکھوں اور ریڑھیوں کے تو دروازے ہی نہیں ہوتے۔میں نے کھوکھے پر خود کو عدیم ہاشمی مرحوم، سلیم ناصر مرحوم، عتیق اللہ شیخ مرحوم، غیور اختر مرحوم، ایم شریف مرحوم کے ساتھ آملیٹ کھاتے، چائے پیتے اور بات بے بات قہقہے لگاتے دیکھا تو آنسوئوں کے سیلاب میں ڈوب گیا۔ آج کل عدیم ہاشمی شکاگو، سلیم ناصر کراچی، غیور اختر اور ایم شریف لاہور، عتیق اللہ شیخ پنڈی کے قبرستان میں رہتے ہیں۔کچھ کے نام یاد ہیں، کچھ کی صرف شکلیں یاد رہ گئیں، کچھ کے نام اورشکلیں دونوں یاداور کچھ کے نہ نام یاد رہ گئے نہ شکلیں کہ میلے میں بچھڑ جانے والوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے اور یہ ایک بار بچھڑ جائیں تو پھر کبھی ملتے ہیں تو صرف قصوں کہانیوں اور فلموں میں۔ اسی لئے عدیم ہاشمی نے کہا تھا؎بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپاڑا دئیے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئےیہ وہی عدیم ہے جو خود تو مرگیا لیکن اس کی یہ غزل آج بھی زندہ ہے؎فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھاسامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھااور وہ راجکماروں جیسا امانت علی خان جسےخود کو گلوکار سے زیادہ دانشور دکھائی دینے کا شوق تھا، اس نے جب کبھی میری دانشوری کا امتحان لیا، میں بری طرح فیل ہوگیا اور خان صاحب نے کبھی مجھے خوشخطی کے نمبر بھی نہ دئیے۔ ایک’’ٹیسٹ‘‘ شیئر کرتا ہوںامانت علی خان نے پوچھا’’یہ بتائو کینیڈی کو کس نے قتل کیا تھا؟‘‘میں نے کہا’’اسوالڈ‘‘ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ دوسرا تیر چلاتے ہوئے پوچھا’’اور اس کا قاتل کون تھا؟‘‘ میرا جنرل نالج جواب دے گیا تو خان صاحب بولے’’دانشور ابھی بچہ ہے کچا ہے یونہی لگا رہا تو کچھ بن جائے گا۔‘‘ بچوں کی طرح معصوم اور محبت کرنے والا پرویز مہدی’’گورئیے میں جانا پردیس‘‘ ، رومانس میں گندھا ہوا اے حمید جو چاہتا تو درختوں کے جھنڈ کو سندر بن بنا دیتا۔ اس کی یاد میں میں نے ا مرتسر کے کمپنی باغ میں حاضری دی تو حیران رہ گیا کہ وہ تو میرے لائلپور کے کمپنی باغ جیسا اک عام سا باغ تھا۔وہ آرہی ہے نگار زریں ملک جو بعدازاں نگار زریں شاہد ہوگئی۔’’پنجابی دربار‘‘ تھا اس کے پروگرام کا نام اور آواز ایسی رسیلی کہ سکھ صاحبان درشن، دیدار کے لئے جتھوں کی صورت آیا کرتے۔ نسرین انجم بھٹی مرحوم دوست تھی جس نے بعد میں ز بیر رانا مرحوم جیسے دوست سے شادی کرلی تو رشتہ پختہ سے دم پخت ہوگیا۔ یہ وہی نسرین انجم بھٹی ہے جس نے بھٹو کی پھانسی اور نصرت بھٹو کے حوالہ سے لکھا’’اسلام آباد کے کوفے سے میں سندھ مدینے آئی ہوں‘‘حسن رضوی مرحوم ڈھیلا شاعر لیکن کسا ہوا صداکار تھا، نگار اور حسن رضوی بڑی دیر تک روزنامہ جنگ لاہور کا حصہ بھی رہے۔ جمیل ملک مرحوم تھا تو پروڈیوسر لیکن ایکٹر بننے کا شوقین۔ اس کی اہلیہ حمیدہ جبیں مرحومہ اپنے وقت کی مقبول ترین ناول نگار تھی جس کے کچھ ناولوں پر فلمیں بھی بنیں۔ پھر بہت ہی بیبی بہت ہی پیاری شائستہ حبیب مرحومہ جو فخر زمان کی اہلیہ ہوئیں۔ شاہین نازلی اور شہناز پروین سحر کی شکلیں اور شخصیتیں دھندلی دھندلی یاد ہیں۔ دونوں غضب کی شاعرات تھیں، معلوم نہیں کہاں ہوتی ہیں۔ ایک پروڈیوسر تھا عسکر مہدی جو شاید کراچی سے آیا تھا، بانکا سجیلا اور مینرازم ایسا جسے بھلاناممکن نہیں۔آج تو شاید کسی کو نام بھی یاد نہ ہو لیکن کبھی اس گلوکار کی گائیکی کے ڈنکے بجتے تھے۔ نام تھا اس کا رجب علی۔ سمارٹ لیکن سائیں لوک سا۔’’مجھے سا تم کو چاہنے والا اس دنیا میں کوئی اور ہو، اللہ نہ کرے‘‘رجب علی آخری بار لندن ملا، میں نے غور نہیں کیا، اپنے مخصوص اور انتہائی منفرد ’’سندھیانہ‘‘ سے لہجے میں پوچھا’’حسن بھائی! یار مجھے پہچانا؟‘‘مجھے اس کا لہجہ بہت ہی اپنا لیکن شکل غیر غیر سی لگی تو میں نے کہا’’تمہاری آواز اور لہجہ بہت مانوس لیکن شکل اجنبی ہے‘‘ بھرائی ہوئی آواز میں بولا’’میں رجب علی ہوں، گلوکار رجب علی‘‘وہی آنسو جو تب تھے اس وقت بھی میری آنکھوں میں ہیں اور ریڈیو پاکستان کی عمارت ان آنسوئوں میں بھیگی ہوئی ہے۔ کتنے لوگوں کا قرض رہ گیا اور کالم ختم ہوگیا۔قرض چکائے نہیں جاتے، کالم ختم ہوجاتے ہیں۔