لاہور(ویب ڈیسک) کم کھائو پر غم نہ کھائو‘‘’’کم کھانا، قرض لیکر کھانے سے بہتر ہے‘‘لیکن جہاں کشکول کلچر ہی رگوں میںسرایت کر جائے وہاں تو قرضے ملنے پر بھی بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں۔اے طائرِلاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی لیکن رینگنے والی مخلوق کا پرواز سے کیا لینا دینا؟ نامور کالم نگار حسن نثار اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔’’جیسی مائی ویسی جائی ‘‘بیٹیوں پر مائوں کی تربیت اور صحبت کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے۔اسی لئے بزرگ کہا کرتے تھے کہ رشتہ کرتے وقت لڑکی سے زیادہ اس کی ماں کو جانچو، پرکھو، دیکھو’’سپوت کیلئے نہ جوڑ، کپوت کیلئے نہ چھوڑ‘‘قابل بیٹا خود سب کچھ بنا لے گا، نالائق بیٹا جتنا کچھ بھی ہواسے برباد کر دے گا۔’’گئے تھے پوت دکھّنــ۔قسمت کے وہی لکھّن‘‘بدقسمتی کہیں پیچھا نہیں چھوڑتی’’گنا لے نہ بھیلی دے ‘‘کسی سے تھوڑی شے بھی لیں تو اس کے زیادہ مانگنے پر انکار مشکل ہے۔’’چھپر پر تو پھوس نہیں پر ڈیوڑھی میں نقارہ ہے ‘‘اپنی اوقات اور حیثیت سے بڑھ کر دکھاوے سے کام لینا’’درپر ہے بارات ۔رنگو دلہن کے ہاتھ‘‘احمقوں کی طرح بغیر کسی مناسب تیاری کے کسی بڑے کام میں ہاتھ ڈال دینا جو PTIنے کیا اور اب سمجھ نہیں آ رہی کہ کدھر جائیں اور کیا کریں۔’’چار دن کی کوتوالی ۔پھر وہی کھرپا اور جالی ‘‘نظام سقہ کی طرح مختصر سی حکومت اور پھر وہی سقائی۔’’دیگ ہوئی دم، حاضر ہوئے ہم‘‘موقع پرستوں کا منشور جس کی بہترین مثال ہمارے سیاست دان ہیں، جو حددرجہ ڈھٹائی سے کھونٹے بدلتے رہتے ہیں۔’’پہلے چٹی۔پھر ہٹی۔ پھر کھٹی‘‘کوئی بھی جینوئین کام راتوں رات منافع بخش نہیں ہوتا، کامیابی کیلئے شارٹ کٹ نہیں۔’’بھیڑ جہاں جائے گی وہیں مونڈ منڈائے گی ‘‘کمزوری ہر جگہ استحصال کا نشانہ بنتی ہے۔’’عرضی دو حرفی، بحالی یا برطرفی‘‘لمبی تحریر ہو یا تقریر…لکھنے بولنے والے کے شایان شان نہیں لیکن ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، دونوں اس مرض میں بری طرح مبتلا ہیں۔’’بھوکے پیٹ بھجن نہ ہووے‘‘بھوک تو یکسوئی سے عبادت بھی نہیں کرنے دیتی۔ اسی لئے افلاس سے پناہ مانگی گئی ہے۔’’لاڈلا پوت کٹوری میں موت‘‘ضرورت سے زیادہ لاڈلی اولاد خود بھی خراب ہوتی ہے۔والدین کو بھی خراب کرتی ہے۔’’نند کا نندوئی، گلے لگ لگ روئی‘‘دور پار کے رشتہ داروں سے جعلی مصنوعی ہمدردی۔’’بوڑھی بھیڑ بھیڑیے سے ٹھٹھا‘‘کمزور کا زور آور کے سامنے بڑھکیں مارنا۔’’ڈوبتا بھانڈ چلائے۔سب سمجھیں وہ گائے‘‘بندے کا تعارف اس کے تعاقب میں رہتا ہے اور کبھی کسی حال میں پیچھا نہیں چھوڑتا۔’’گٹھڑی حلال ہے۔ بقچہ حرام ہے‘‘تھوڑے میں ایمانداری، زیادہ میں بے ایمانی جو کلاسیکل قسم کے راشیوں کی جانی پہچانی نشانی ہے۔’’گھوڑا ملے تو کوڑا بھی ملے‘‘بڑا کام ہو جائے تو چھوٹا بھی ہو جاتا ہے’’پھٹا دودھ جما نہیں دیکھا‘‘رشتے میں بال آ جائے تو کبھی نہیں جاتاقارئین !کالم تو شیطان کی آنت ہوتا جا رہا ہے ۔یار زندہ صحبت باقی۔