اسلام آباد(مانٹرونگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، تجزیہ کار اور کالم نگار حسن نثار اپنے آج کے کالم مںز لکھتے ہںت کہ دناا بھر مںو جہاں انڈسٹری ہمشہف اپنی پالییہ صارف کی صحت اور سہولت کو مدنظر رکھ کر بناتی ہے وہںق پاکستان مںل الٹی گنگا بہتی ہے۔ یہاںانڈسٹری اپنے کاروباری مفاد
کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی پالیان ہمشہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے اصول پر بناتی ہے۔ انتظامی اداروں کو ہمشہپ ہی اپنے زیر اثر رکھ کر قواننا کی ایین وضاحت کی جاتی ہے کہ صارف کا مفاد دفن ہو کے رہ جاتا ہے۔پاکستان کی تاریخ مںن پہلی دفعہ ’’پنجاب فوڈ اتھارٹی‘‘ کی صورت مںز ایک ادارہ قائم ہوا جس نے قانون سازی کی بناظد صارف کی صحت اور مفاد عامہ کو بنایا۔ ایساملک جہاں 44فی صد آبادی غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہے وہاں صحت مند غذا کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے قانون سازی کی ابتداکی اور صحت دشمن اشائء خورونوش کو روزمرہ کی استعمال کی فہرست سے نکالنے کا کام شروع کاج۔ ہڈیوں کی کمزوری کا شکار بچے جو کولا ڈرنکس کو پانی کی طرح استعمال کرتے تھے، ایسے مشروبات ان کی پہنچ سے دور کرنا ایک بڑا قدم تھا۔ دل کی بمااریوں سے شرح اموات مںح خوفناک اعداد و شمار رکھنے والے ملک کے ایک صوبے مںر بناسپتی گھی کو مکمل طور پر بنم کرنے کا قانون بھی پنجاب فوڈ اتھارٹی ہی لے کر آئی ہے۔ جہاں نصف کے قریب آبادی خواندہ نہ ہو، وہاں دودھ اور ٹی وائٹنر مںی فرق کرنا کسےا ممکن ہوسکتا ہے؟ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ہی انڈسٹری کو پہلی دفعہ قانون کے زمرے مںر لا کر دھوکہ دہی سے ٹی وائٹنر کو دودھ بنا کر بچنے پر پابندی لگائیاور واضح کروایا کہ ٹی وائٹنر کسی طرح بھی دودھ کے قریب نہںا ہے۔ جس صوبے مںے 50فصدا خواتنے اناے ر، 15فصدں خواتنا کلوارک انرجی کی کمی کا شکار جبکہ پانچ سال سے کم عمر 31.5فصدی بچے وزن کی کمی کا شکار ہوں، وہاں تو خالص غذا کے کلچر کو عام ہونا چاہئے مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ڈیری پراڈکٹس اور مکھن کے نام پر ویبل، فیٹ سے بنی مارجرین عوام کو کھلا کر حالات کو مزید سنگیہے کی طرف لے جایا جارہا تھا۔حالات بہتری کی طرف اپنا سفر شروع تو کر چکے ہںا مگر اربوں روپے منافع کمانے والی بے لگام انڈسٹری اپنے مفادات سے اتنی آسانی سے پچھے ہٹنے کو تایر نہںہ۔ بوڈریج انڈسٹری، آئل اینڈ گھی منوففکچرارز، فروزن ڈیزرٹ کمپنووں سمتع وہ تمام انڈسٹری جس کو بے لگام چلنے کی عادت تھی، اییل انڈسٹری کو اب جب قانون کے دائرے مں. آکر عوام دوست، صحت دوست پالیتا اپنانے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے تو ایسے مںئ ایک دفعہ پھر سازش کا بازار گرم ہے جس کی تفصل جاننا حکومت اور شہریوں کلئے بحدی ضروری ہےبااثر انڈسٹری پنجاب فوڈاتھارٹی سمتم تمام فوڈ اتھارٹزے کے قانون سازی کے اختا رات کو ختم کر کے وفاق کی سطح پر ایک ادارہ بنوانے کی کوشش کررہی ہے جس کو وہ آسانی سے اپنے مفادات کے مطابق چلا سکے اور ان کی’’کاروباری آزادی‘‘ ممکن ہو سکے۔ پاکستان سٹنڈبرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول (پی ایس کوس سی اے) نامی ایک وفاقی ادارہ جو تمام اشاےء کے معامر کا تعنس کرتا ہے، کی مثال ہم سب کے سامنے ہے جہاں کمپناوں اپنی پراڈکٹ پہلے بناتی ہںا اور پھر اپنی مرضی کے مطابق معاسربنوا کر رجسٹر ہو جاتی ہںڈ۔ پی ایس کوڈ سی اے سے پاس شدہچنگ چی رکشہ جو آج بھی ایک بھاینک ذریعہ آمدورفت کی صورت مںت موجود ہے کوپی ایس کور سی اے نے ہی پاس کاک اور کر رہا ہے۔ انڈسٹری کی کوشش ایک ایسا ہی وفاقی ادارہ بنوانا ہے۔ کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) مںک معاملہ لے جانےکی کہانی بھی خوفناک حد تک دلچسپ ہے۔ سب سے پہلے یہ معاملہ سی سی آئی کو نگران حکومت نے بھجاھ۔ قانون کے مطابق نگران حکومت کو کسی بھی قسم کا کوئی انتظامی فصلہ کرنے کا اختا ر نہں تھا۔ نگران حکومت کا کام تو صرف معمولات چلانا اور الکشنط کروانا ہی تھا مگر منافع خوروں کی ٹولی نے مخصوص ایجنڈے کے تحت نہ صرف سمری بنوائی بلکہ کسی کو کانوں کان خبر ہونے دیے بغرا معاملہ وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر حتمی مراحل تک لے گئے۔ یہاں تک کہ ’’پنجاب فوڈاتھارٹی‘‘ جواس سارے معاملے
مںک فریق کی حتفن رکھتا ہے کو بھی علم نہ ہوسکا۔ ذرا اس سازش اورعوام دشمن واردات پر غور فرمایئے کہ نگرانوں کو کسےہ برت گئے۔اب ذرا ان قانونی نکات پر غور کریں جن کا سہارا لے کر یہ سارا ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔ پہلا نقطہ یہ باےن کات جارہا ہے کہ بنھ الصوبائی تجارت کی قانون سازی کونسل آف کامن انٹرسٹ کے زمرےمںا آتی ہے لہٰذا خوراک کے شعبے کو بھی سی سی آئی کابنایاگاف وفاقی ادارہ ہی دیکھے۔ یہ نکتہ حقائق کے بالکل منافی ہے۔ آئن پاکستان کے آرٹکلت 153کے تحت قائم ہونے والی سی سی آئی کے منڈکیٹ مںا خوراک کا سرے سے ہی کوئی ذکر نہں ۔ خوراک کے شعبے کی قانون سازی روز اول سے ہی صوبائی استحقاق تھا اور آج کے دن تک ایسا ہی ہے۔ اگر فڈٰرل لجسلٹوھلسٹ کے فورتھ شڈ3ول کے حصہ اول کے پوائنٹ نمبر 27کو دیںھی تو اس مںر بن الصوبائی تجارت کا ذکر ضرور ہے مگر خوراک کا ذکر ہرگز نہںن۔پولر فوڈز رولز کی تاریخ پرنظر ڈالی جائے تو حرمان کن امر سامنے آتا ہے کہ پہلی دفعہ 1920ء مںا پنجاب پوتر فوڈز رولز بنائے گئے۔ اگر فوڈ وفاقی اختا ر ہی تھا تو تب بھی پنجاب پورر فوڈ رولز ہی کوعں بنائے گئے؟ آل انڈیا پوہر فوڈز رولز کوےں نہںی؟ دوسری طرف پاکستان مںز 1960ء مںا پورر فوڈ آرڈیننس لاگوہوا جس نے ایک مرتبہ پھر واضح کاڈ
کہ فوڈ ایک صوبائی موضوع ہی ہے اور صوبائی حکومت ہی بہترفصلہ کرسکتی ہے کہ اس کے عوام کا کھائںٓ اور کا نہںئ۔ 1960ء کے بعد آنے والے موجودہ آئنص پاکستان (1973ء) نے بھی سی سی آئی کو فوڈ ریگولشنٓ کااختایر نہ دے کر اس پر مہر تصدیق ثبت کی۔ اب یہ انڈسٹری ان تمام حقائق کی نفی کر کے بنت الصوبائی تجارت کی آڑ مںں گھنائونے عزائم پورے کرنے کی کوشش کررہی ہے جو بہت ہی خوفناک صورتحال کو جنم دے گا۔بنا الصوبائی تجارت کی مزیدوضاحت کے لئے ہم دناہ بھر کے بڑے ترقی یافتہ نظاموں مںئ سے امریکہ کی مثال لتےر ہںا جہاں ہر ریاست کو قانون سازی کا اختایر بھی ہے اور جہاں انٹر سٹٹن ٹریڈ کا حجم بھی بہت زیادہ ہے۔ امرییا قانون کے آرٹکلے ون مںن شامل ڈورمنٹ کامرس کلاز کےمطابق ہرریاست کو اپنی قانون سازی، کسی بھی پراڈکٹ کی فروخت کو مکمل بنل کرنے یا اس کے اجزائے ترکیکے مںج تبدییب کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس قانون مںہ صرف ایک ہی شرط ہے کہ کسی بھی کمپنی کےساتھ امتائزی رویہ اختا ر نہ کاق جائے۔ بالکل ییا صورت حال یہاں ہے کہ جہاں عام آدمی کی صحت کے پشی نظر اپنے صوبے اور دوسرے صوبوں سے آنی والی کوئی بھی چزل مکمل بند بھی کی جاسکتی ہے، اس کے اجزائے ترکییو
بھی قانون کے مطابق بدلے جاسکتے ہںت تاہم ایسا نہںے کای جاسکتا کہ پنجاب مںی بننے والی چز، کو فروخت کی اجازت ہو مگر کسی دوسرے صوبے سے آنے والی وییہ ہی چزک بند کردی جائے یا اس پر کوئی اضافی ٹکس لگا دیا جائے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی ہمشہی سے ہی اپنے دائرہ کار مںا رہ کر کام کررہی ہے۔ صحت عامہ کے تحفظ کے پشر نظر جہاں سخت اقدامات اٹھائے جارہے ہںت وہاں انڈسٹری کو متبادل کاروبار اور پراڈکٹس لانے کے لئے بزنس ایڈجسٹمنٹ ٹائم بھی دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی بھی پراڈکٹ مںا کوئی تبدییے کروانی ہو تو 30سے زائد پی ایچ ڈی ڈاکٹرز پر مشتمل پنلے کی رائے لنےم کے بعد بھی انڈسٹری کے نمائندوں کو اپنا موقف پشر کرنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔ جدید ریسرچ کے تمام اصول مدنظر رکھ کر معاےر کا تعنک کرنے کے بعد اگر عام آدمی کے تحفظ کے لئے اقدامات کئے جارہے ہںر تو انڈسٹریبجائے اپنی ذمہ داری نبھانے کے راہ فرار اختاخر کرنا چاہتی ہے۔ ییٹ کمپنی جب امریکہ اور دیگر ملکوں مںڈ کام کرتی ہے تو پالینب سازی کا مرکز صارف ہوتا ہے، جب پاکستان کی باری آئی تو پالی ئ سازی کا محور زیادہ سے زیادہ منافع ہوتا ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی نے صرف خوراک کے شعبہ مںت پالی۔و سازی کر کے عام آدمی کو تحفظ نہںس دیا بلکہ ایک نائ کلچر متعارف کروایا ہے جس مںڈ ریاست کی بناسدی اکائی، عام آدمی کو تحفظ دیا جارہا ہے۔ ایک اییک روایت قائم کی ہے جس مںع چند روپوں کی خاطر ’’چنگ چی‘‘ کو قوم پر مسلط نہ کان جائے بلکہ ایک مضبوط اور صحت مند قوم کو پروان چڑھا کر ملک کی بناادوں کو مضبوط کاگ جائے لکنی ہمشہ کی طرح اب کی بار بھی اییر ہی پالیمن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایک دفعہ پھر سے انڈسٹری کو مادرپدر آزاد کاروبار کا موقع مل سکے۔ انڈسٹری ایک ایسا پاکستان اورخاص طور پر سب سے زیادہ آبادی والا ایسا صوبہ پنجاب چاہتی ہے جہاں ٹی وائٹنر اوردودھ مںر فرق کرنے والا کوئی نہ ہو، جہاں دل کی بماںریاں بناسپتی گھی کی صورت مںج کھلے عام ہمشہ بکتی رہںد ایسا ملک جہاں بچوں کو فارمولا دودھ ماں کے دودھ کا نعم البدل بنا کرپلایا جاتا رہے، جہاں بچے دودھ کی جگہ صحت دشمن انرجی اور کولا ڈرنکس روزانہ استعمال کریں۔ وہاں اس انڈسٹری کو ایسا پاکستان چاہئے جہاں وہ زہریلے ککلز سے پھل پکاتے رہں ، بغرے رس استعمال کئے جوس بنا کر عوام کی رگوں مںا زہر گھولتے رہں،، دودھ کے نام پر پائوڈر اور مٹھائورں کے نام پر مشنواں مںئ تامر کردہ کھویا کھلاتے رہںا۔ پتی مںر چھلکے، مرچوںمیں ایںٹی پسے کرڈالتے رہںو مگر کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ ایسا ملک جہاں ادارے ہوں مگر ان مںو کسی کو پوچھنے کی سکت نہ ہو، قوم کی صحت سے کھلنےو والوں کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔اس سازش کو بروقت نہ روکا گاو تو اس قوم کو کسی مودی موذی سرکار کی ضرورت نہںس پڑے گی۔ عزت مآب چفچ جسٹس سے اپلں ہے کہ پلزا! اس سنگنا صورت حال پر بھی اک نظر جو آئندہ نسلوں کے بھی کام آئے گی۔