لاہور (ویب ڈیسک) پی ٹی آئی حکومت اور کسی کام کی طرف مائل یا اس کیلئے قائل ہو نہ ہو، شجرکاری اور ’’جنگل اگائو‘‘ مہم کیلئے ہمیشہ تیار رہتی ہے کیونکہ یہ ان کے لیڈر اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کی کمزوری ہے، اس کا وژن ہے اور بلاشبہ ہر سمجھ دار پاکستانی
صف اول کے کالم نگار حسن نثار اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی ضرورت و اہمیت سے مکمل طور پر آگاہ ہے۔ کلین اور گرین پاکستان کس پاکستانی کی خواہش یا خواب نہ ہوگا؟سرسبز پاکستان کیلئے پہل کاری یقیناً PTI کا بہت بڑا اعزاز ہے جس کا آغاز خیبر پختونخوا سے کیا گیا تو اس کی دیکھا دیکھی ہی سہی، شہباز شریف نے بھی اس کار خیر کیلئے قدم بڑھایا جس پر اسے نقل مارنے کے طعنے دینے کی بجائے داد دینی چاہئے۔ شہباز شریف نے ’’ایس پی ایف سی‘‘ (سائوتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی) کی بنیاد رکھی جس کے تحت جنگلات کی زمین لیز پر دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ سائوتھ پنجاب کی بنجر اور غیرآباد زمینوں کو پرائیویٹ اور فارن سرمایہ کاری کی مدد سے آباد و سرسبز کیا جاسکے۔ جن سرمایہ کاروں کوبذریعہ ٹینڈر جنگلات کیلئے زمینیں دی گئیں، ان کے ساتھ معاہدے بھی ہوگئے لیکن کام شروع کرنے کے اجازت ناموں کے اجرا سے پہلے ہی شہباز حکومت کا بستر گول ہوگیا جس کے نتیجہ میں سب کچھ فریز ہو کر رہ گیا اور ابھی تک کوئی کچھ نہیں جانتا کہ نئی حکومت کا موڈ، لائحہ عمل یا پالیسی کیا ہوگی؟ سائوتھ پنجاب میں اس وقت جنگلات کی تقریباً 99000ایکڑ زمین بنجر پڑی ہے
جس کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت لیز پر دیئے جانے سے نہ صرف گرین پاکستان کی طرف اہم پیش رفت ہوگی بلکہ تقریباً پندرہ ہزار بے روزگاروں کو روزگار بھی مل سکے گا۔ چین ا ور بھارت بھی ایسے منصوبوں سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔ چین نے اسی منصوبہ کے تحت اپنی 37فیصد زمین جنگلات کیلئے وقف کی جبکہ بھارت نے 22فیصد رقبہ آباد کرنے کیلئے لوگوں کو لیز پر دیا جس کے نتیجہ میں بھارت آج ہربل اشیا کا بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔بھارت صرف ’’مورنیگا‘‘ کی ایکسپورٹ سے ہی سالانہ اربوں ڈالر کمارہا ہے جو پودا ہی سائوتھ پنجاب کا ہے۔قارئین کی بھاری اکثریت کو یقیناً اندازہ بھی نہ ہوگا کہ جس ’’مورنیگا‘‘ کا میں حوالے دے رہا ہوں اسے ہمارے سائوتھ پنجاب میں ’’سہانجنا‘‘ کے خوب صورت نام سے جانا جاتا ہے اور اس علاقہ کا بچہ بچہ ’’سہانجنا‘‘ کے نام اور کام سے بخوبی واقف ہے۔موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ’’سہانجنا‘‘ کو مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے اور جنگلات کی اہمیت کو بھی مجھ سے بہتر سمجھتے ہوں گے تو مشورہ صرف اتنا ہے کہ شہباز شریف والا کام نہ کریں، جیسے شہباز صاحب نے چوہدری پرویز الٰہی کے بہت سے عمدہ اعلیٰ پراجیکٹس کو شیلف کردیا تھا۔
یہ ایک منفی رویہ ہوگا اس لئے بہتر ہے ’’سائوتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی‘‘ کی فائلوں سے گرد اڑائیں، منصوبہ پر غور کریں، کوئی تبدیلی لانی ہے تو لائیں لیکن اس پروجیکٹ پر جلد از جلد عملی طور پر کام شروع کرائیں کہ پاکستان میں تو اس کو متعارف کرانے کا کریڈٹ ہی PTIکو جاتا ہے۔صرف اس لئے اسے نظرانداز کرنا مناسب نہ ہوگا کہ یہ شہباز شریف نے شروع کیا تھا سو تھوڑے لکھے کو بوہتا سمجھیں اور اس منصوبہ کو سرد خانہ سے نکال کر میدان میں لائیں۔قارئین!آج کا اصل موضوع تو یہی تھا جو مکمل ہو چکا لیکن چلتے چلتے ایک آدھ مشورہ اپوزیشن کیلئے بھی کہ…. ’’بھائی لوگو‘‘! معاملہ ایسے چھچھورے، سطحی سوالوں سے بہت آگے نکل چکا کہ ’’بتائیں غریبوں کے منہ سے نوالہ کیوں چھینا؟‘‘ آپ لوگ خدا جانے کس ایجنڈے کے تحت ملکی معیشت کے ساتھ جو کچھ کر گئے ہو اس کی کچھ نہ کچھ قیمت تو کچھ دیر غریبوں کو چکانی ہی پڑے گی۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ اپنی ذاتی جاگیر پر عوام کے پیسے سے کروڑوں روپے کی حفاظتی دیوار بنوانے والے بھی غریبوں کی بات کررہے ہیں۔ کوئی اور ہو نہ ہو، میں ان کی اصل تکلیف سے واقف ہوں۔ صحیح کہا عمران نے ’’شہباز شہباز پکارنے والوں کو اپنی باری کا خوف ہے‘‘۔ رہ گیا نوالے چھیننا تو کیا یہ موازنہ کافی نہیں کہ وزیراعلیٰ آفس کے ماہانہ اخراجات 55لاکھ روپے سے کم ہو کر 9لاکھ رہ گئے۔ یہ فرق علامتی بھی ہے اور ملامتی بھی جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید واضح ہوتا جائے گا، سو ڈھنگ کی اپوزیشن کرو ورنہ اگر کوئی مستقبل ہے تو وہ بھی باقی نہ بچے گا۔ ماضی سے نکلو ورنہ ماضی ہو جانے میں کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ بھی پوری ہو جائے گی۔