نفرت انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ خاص طور سے اس وقت جب انسان کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اس نفرت کی وجہ کیا ہے۔ ایسے انسان قابل رحم ہوتے ہیں جو بغیر حقائق جانے کسی سے نفرت پر مجبور ہو جاتے ہیں یا مجبور کر دیئے جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ ان کی نفرت بڑھتی ہے اور بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اپنی نفرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ کچھ کر جاتے ہیں جو ان کی اصل شخصیت سے میل نہیں کھاتا۔ ممکن ہے بعض اوقات وہ خود بھی اپنی اس نفرت پر حیران ہوتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خود انہیں اپنی نفرت سے نفرت ہو مگر اپنی نفرت سے نفرت کرنے کے باوجود وہ نفرت کا پرچار کیے بنا نہیں رہ پاتے۔ یہ خیال مجھے ملالہ یوسفزئی کے حالیہ دورہ پاکستان میں اس بچی کے خلاف سوشل میڈیا پر پھیلتی ہوئی نفرت دیکھ کر آیا۔
ملالہ یوسفزئی وہ بچی ہے جو اپنی تعلیم دوستی کے باعث طالبان کے حملے کا شکار بنی۔ طالبان کے بہت سے شکاروں کے برعکس یہ خوش قسمت بچی زندہ بچ نکلی اور یہی زندہ بچ جانا اسے اپنی ہی قوم کے بہت سے لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنا گیا۔ جو معروف اور حیرت انگیر وجوہات ملالہ سے نفرت کے لیے بیان کی جاتی ہیں ان میں “گولی کا لگنا ڈرامہ تھا۔ ملالہ نے پاکستان کی کون سی خدمت کی ہے۔ ملالہ یہودیوں کی ایجنٹ ہے۔ نہ صرف یہودیوں بلکہ مسیحیوں، ہندوؤں، ملحدوں، لبرلوں اور معلوم نہیں کن کن کی ایجنٹ ہے۔ ملالہ نے اپنی کتاب میں اسلام، پاکستان اور پاکستان کی فوج کے خلاف زہر اگلا ہے۔ ملالہ کو بیرونی طاقتیں تیار کر رہی ہیں تاکہ مستقبل میں وہ پاکستان کی وزیر اعظم بن سکے۔ ہماری ہیرو ملالہ نہیں بلکہ اے پی ایس کے بچے ہیں جو پاکستان میں ہی رہ رہے ہیں اور اسی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔” سرفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ بھی لیکن بہت سی وجوہات بیان کی جاتی ہیں مگر ان وجوہات کے اعلیٰ اخلاقی الفاظ اور افکار کی بنا پر ان کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔
ان وجوہات کے اثبات اور تردید میں بہت سے لوگ لکھ چکے اور لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ جو ان وجوہات کو سچ سمجھتے ہیں وہ ان کی ترویج اپنے ایمان کاحصہ سمجھ کر فرما رہے ہیں اور جو ان وجوہات کو غلط سمجھتے ہیں وہ ان کی تردید اور رد میں اپنی رائے بیان کرتے چلے جا رہے ہیں۔ میں اس بارے میں جو بھی لکھ دوں وہ ان سب باتوں سے الگ نہیں ہو گا جو صاحب رائے اور کہنہ مشق قلم کار پہلے ہی بیان کر چکے ہیں لہٰذا میں ملالہ یوسفزئی کی صفائی میں کچھ نہیں کہتا کیونکہ میری تحریر پڑھ کر کسی نے اپنی رائے تبدیل نہیں کرنی۔ جس نے جو تہیہ کیا ہوا ہے وہ اسی رائے پر قائم رہے گا۔ ملالہ کو برا سمجھنے والے مجھے گالیاں دے دیں گے اور اچھا سمجھنے والے میری تحریر کی تعریف کر دیں گے اور وقت آگے بڑھ جائے گا۔ چناچہ اس بحث کی بجائے ہم ایک اور حقیقت کی طرف چلتے ہیں۔
ملالہ یوسفزئی کے پاکستان کے دورہ کے ساتھ ہی جو حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم لوگ بلا لحاظ فکر انتہا پسندی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے عام طور پر مذہبی طبقات کو انتہا پسند مانا جاتا تھا اور روشن خیال طبقات کے بارے میں یہ رائے قائم ہو چکی تھی کہ وہ پاکستان کا معتدل چہرہ ہیں۔ مگر اب نظر یہ آ رہا ہے کہ پاکستان کا معتدل چہرہ بھی دراصل پاکستان کا وہ انتہا پسند چہرہ ہی ہے جس نے اپنے اوپر لبرل ہونے کا نقاب چڑھایا ہوا تھا۔ ملالہ کے دفاع میں بے دریغ مذہبی طبقات اور تعلیمات کو نشانہ بناتا ہوا یہ طبقہ اپنی اصل میں ان مذہبی انتہا پسندوں سے کسی بھی طرح مختلف نہیں ہے جس کی ہجو یہ جا بجا لکھتے چلے جاتے ہیں۔
ہمیں اب اس مغالطے سے باہر نکلنا ہوگا کہ پاکستان میں صرف مذہبی طبقہ ہی انتہا پسندی کا نمائندہ ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ اب اس کی زد سے مذہبی، لبرل، سیکولر، ملحد کوئی بھی باہر نہیں رہا۔ بلکہ میں یہ بھی لکھنا چاہوں گا کہ اس وقت انتہا پسندی کسی بھی انداز فکر سے بالاتر ہو کر ہمارے معاشرے کی جڑوں میں گھس گئی ہے۔ اور انتہا پسندی کسی بھی قوم کی بنیادیں ہلا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اس معاملے کی نزاکت کو محسوس کرنے کی بجائے اس راستے پر قدم آگے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ عزت نفس کو سفاکی سے مجروح کیا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال کے مصرعے “جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو” کے مصداق ہم ہر اس نقش چاہے وہ کہنہ سال ہو یا جدید، اپنی راہ سے ہٹا دینا چاہتے ہیں جو ہمارے ذہنی میلان سے میل نہیں کھاتا۔ جب ہم اپنے مؤقف کے حق میں دلیل نہیں پیش کر پاتے تو دوسرے کے مؤقف پر تبرا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہم ہر قیمت پر صرف اور صرف اپنی منوانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں بے چاری ملالہ کیا بچتی ہے۔ اس قوم میں تو جید علمائے کرام سے لے کر معروف فلسفیوں، علم دوستوں اور سائنسدانوں تک سبھی کے افکار کے پرخچے وہ لوگ اڑا رہے ہیں جن کی اپنی فکر ہمیشہ فکرمندی کا شکار رہتی ہے۔
یہی چیز نفرت کہلاتی ہے۔ ہم ہر اس شخص سے نفرت کرتے ہیں جس کو ہم اپنے سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ہم اس کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ البتہ نفرت کی انتہا پر جا کر اپنا آپ بگاڑ لیتے ہیں۔ ننانوے فیصد معاملا ت میں ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم کیوں نفرت کرتے ہیں۔ مگر پھر بھی ہم نے نفرت کرنی ہوتی ہے۔ چلیں پھر نفرت ہی کرتے ہیں۔ مگر ایک بات ضرور سمجھ لینی چاہیئے۔ نفرت کرنے والے لوگ یا معاشرے یا قوم دنیا میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ وہ ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں۔ پیچھے چلتے ہیں اور اپنے سے آگے چلنے والوں سے نفرت کرتے چلے جاتے ہیں۔ آیئے ہم بھی مزید نفرت کریں کیونکہ:
نفرت ہے عجب چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے ہر شخص کو تاج سرِ خارا