counter easy hit

کینہ ایک زہر قاتل…!

 Hatred is the root of evil, a column by Tayyaba Zya Cheema on 18 October 2016

Hatred is the root of evil, 

 Hatred is the root of evil, a column by Tayyaba Zya Cheema on 18 October 2016

Hatred is the root of evil

 Hatred is the root of evil, a column by Tayyaba Zya Cheema on 18 October 2016

Hatred is the root of evil, a column

مسجد نبوی کے ممبر پر امام الشیخ ڈاکٹر جسٹس صلاح بن محمد آلبدیر نے جمعہ کے خطبہ میں فرمایا کہ ایسی قوم میں محبت عام نہیں ہو سکتی جو کینہ سے بھر پور ہو، جو دشمنی مول لے، اور انتقام کیلئے موقع کی تلاش میں رہے وہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا ، اور پریشانیوں میں اوندھے منہ پڑے رہتے ہیں۔لوگوں کے تعلقات کو کینے سے زیادہ کسی چیز نے خراب نہیں کیا، یہی مخفی بیماری ، پھیلنے والا شر، جو کہ آبادیوں کو منہدم اور خزانوں کو خالی کر سکتا ہے، قربت اور دوستی کو ختم کر کے لڑائی کی وجہ بنتا ہے۔کینہ کو تم ایسے پاؤ گے کہ یہ وبائی خارش کی مانند چھپنے کے بعد اچانک منتشر ہو جاتا ہے۔کتنی جلدی کینہ لوگوں کے قریب آ جاتا ہے! کتنی جلدی ظاہر ہوتا ہے! پھر کتنا نزدیک آ جاتا ہے! اور پھر کس قدر پھیل جاتا ہے!بد ترین افزودگی ہے کینہ پروری ! جو بچوں کے دلوں میں تیزی کے ساتھ گھر کرتا ہے، جو نسلوں کے سینوں میں جاگزین ہوتا ہے، اور دائمی و سرمدی باقی رہتا ہے۔
پہلے کہا گیا ہے کہ:ہمارے آباؤ اجداد نے کینوں کو جلا بخشی، اور انکی نسل کی موجودگی میں اب یہ کینے کبھی بجھ نہیں پائیں گے۔کینہ جس کی علامت ہو، انتقام جس کا ہدف ہو، دل کی بھڑاس نکالنا جس کی عادت ہو، اسکا چاندگرہن ہو گیا، اس کے در و دیوار گر گئے، قدر و منزلت مٹ گئی، اور سینہ جلنے لگا۔ اور جو شخص حسد و کینہ چھوڑ دے، صحیح سلامت زندگی گزارتا ہے، اپنے دوستوں میں اضافہ کرتا ہے، لوگوں کے جھرمٹ میں رہتا ہے، زیادتی سے پرہیز کرتا ہے، اور تباہ ہونے سے بچ جاتا ہے۔
اور جس وقت دردِ دل، دشمنی، اور لڑائی جھگڑے کا قلب پر تسلط ہو جائے تو ضمیر مردہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے دل میلا ، صحت فنا، دائمی پریشاں، اور دوا رائیگاں ہو جاتی ہے۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اختلاف رائے کی بنا پر تعلق توڑ دیتے ہیں، لڑائی میں گالم گلوچ اور تہمت بازی سے کام لیتے ہیں، اور انتقام لینے کا سوچتے ہیں، جس کیلئے ایذا رسانی اور دشمنی قائم کرتے ہیں۔ مفید ترین وصیت اور جامع حکمت سید الحکماء محمد رسولؐ کا فرمان ہے: (جو شخص بھی یہ چاہتا ہے کہ جنت میں داخل ہوجائے اور جہنم سے بچ جائے توہ وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھے اور اسے چاہیے کہ موت ایسی حالت میں آئے کہ وہ لوگوں سے ایسے پیش آتا ہو جیسے وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے) اس حدیث کو مسلم نے عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ نے روایت کیا ہے۔ یعنی لوگوں کے ساتھ وہی کچھ کرے جس کی اسے لوگوں سے امید ہوتی ہے، اس طرح معاملات سدھر جائیں گے، اختلافات و نفرتیں مٹ جائیں گی، اور سینوں سے کینے زائل ہو جائیں گے۔کینہ اور حسد کی آگ دل میں اٹھائے پھرنیوالے! کینہ رکھنے کی وجہ سے کسی بلند مقام کو نہیں پا سکتے، شان و شوکت نہیں بنا سکتے، اچھا نام پیدا نہیں کر سکتے، اور کبھی خوشحال نہیں ہو سکتے۔کینہ چھوڑ دو، تمہیں کینے سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ کینہ رشتہ داری کے خاتمے کا باعث ہے۔تمہارے اندر نصیحت کے نام پر چغل خوری کرنے والے کی ایک نہ مانو، کیونکہ چغلی خالص زہر قاتل ہے۔
وہ اپنے بچھو تمہارے اندر لڑائی ڈالنے کے لئے ایسے چھوڑتا ہے، جیسے شہ رگ میں خون چلتا ہے۔کسی عزیز کیلئے کینہ مت رکھنا، بے شک کینہ قرابت داری کو ختم کر دیتا ہے۔ برے شخص کے ساتھ احسان قرابت کا باعث ہے، اس کے ساتھ نرمی تمہاری طرف مائل کر دے گی اور شائستگی اسے اپنی آغوش میں لے لے گی۔
کسی عزیز کیلئے کینہ مت رکھنا، بے شک کینہ قرابت داری کو ختم کر دیتا ہے۔ محبت و الفت، غضبناک و آتشی مزاج کے ساتھ زیادہ دیر نہیں رہتی، اسی طرح غصہ و تصادم کی فضا میں احترام باقی نہیں رہتا، ایسے ہی مقابلہ بازی اور انتقامی ماحول میں سلامتی نہیں ہوسکتی۔انتقام کا متمنی اپنا وقت ضائع کرتا ہے، اپنے بھائیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، اور اس کے ساتھی اسے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور جو شخص ہر وقت تیوری چڑھائے رکھے، خالی ہاتھ ہونے کے باوجود دشمنی رکھے، معاف نہ کرے، وہ ہلاک و برباد ہو گیا، اور برائی میں اوندھے منہ گرگیا۔ لڑائی، بدکلامی، کسی کو عمداً تکلیف پہنچانا، اور غضبناک کرنا، مذموم اعمال ہیں، جو سینے کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں، ان سے غصہ پروان چڑھتا ہے، اور کینہ پیدا ہوتا ہے، اور پیار و محبت کا ناطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ (مدینہ منورہ ) کینہ کسے کہتے ہیں؟ دل میں دشمنی، نفرت اور غصہ کو روکے رکھنا اور موقع پاتے ہی اس کااِظہار کرنا کینہ کہلاتاہے۔ کوئی شخص ایسا ہے جس کا خیال آتے ہی آپ کو اپنے دل میں بوجھ سا محسوس ہوتا ہے، نفرت کی ایک لہر دل ودماغ میں دوڑ جاتی ہے، وہ نظر آ جائے تو ملنے سے کتراتے ہیں یا بوجہ مجبوری ملنا پڑے لیکن زبان، ہاتھ یاکسی بھی طرح سے اْسے نقصان پہنچانے کا موقع ملے تو پیچھے نہیں رہتے تو سمجھ لیجئے کہ آپ اس شخص سے کِینہ رکھتے ہیں۔ جس شخص سے کینہ ہو اسے تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایک ماہ کا عرصہ حرمین شریفین کے فضائوں میں گزارنے کے بعد مسلمان مومن ہو جاتا ہے ؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو اس کا ثبوت وہ لاکھوں کروڑوں مسلمان ہیں جو حج و عمرہ کی سعادت سے گھروں کو لوٹتے ہیں لیکن ان کی زندگیوں میں خاص تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ فطرت بھی ہو سکتی ہے۔ بعض اوقات انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے۔ فطرت تبدیل نہیں ہو سکتی لیکن انسان کوشش کرے تو فطرت بد کے منہ زور گھوڑے کو لگام ڈال سکتا ہے ۔ نیکی اور بدی کی فطرت حضور نبی کریمؐ نے اس طرح واضح فرمائی کہ (جنت مشکلات سے گھیر دی گئی ہے اور دوزخ مرغوبات سے گھیر دی گئی ہے)۔ اسی بات کو مسیح علیہ السلام نے یوں واضح فرمایا ہے کہ بدی کی راہ فراخ اور کشادہ اور اس پر چلنے والے بہت ہیں اور نیکی کی راہ تنگ ہے اور اس پر چلنے والے تھوڑے ہیں۔ چونکہ بھلائی اور نیکی کے کاموں کی فطرت قدرت نے کچھ ایسی بنائی ہے کہ ان کے انجام دینے کے لیے ہمارے نفس کو ایک چڑھائی سی چڑھنی پڑتی ہے جس کے لیے عزم و ہمت کی ضرورت ہے اور اس عزم و ہمت کو پیدا کرنے کے لیے آدمی کو اپنی تربیت کرنی پڑتی ہے۔ برعکس اس کے برائی کے کاموں کے لیے آدمی کو اپنے نفس کو اس کی خواہشات کے بہاؤ پر چھوڑ دینا کافی ہوتا ہے، اس کے لیے کسی ریاضت یا کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ نفس کے امراض کی فہرست طویل ہے لیکن کینہ اور بغض کا تعلق فطرت کے بد گوشے سے ہے۔ کینہ و بغض حسد اور رقابت کو جنم دیتا ہے۔ دشمنی اور نفرت کو عزیز رکھتا ہے۔ بندہ ذہنی مریض بن جاتا ہے۔ اپنی ہی آگ میں خود ہی جھلستا رہتا ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ نبی کریم صلی وسلم نے فرمایا “سوموار اور جمعرات کے روز جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور وہ تمام لوگ بخش دئیے جاتے ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے البتہ وہ دو شخص جو باہم کینہ رکھتے ہیں ان کی بخشش نہیں ہوتی۔ حکم ہوتا ہے کہ انہیں مہلت دے دو حتیٰ کہ صلح کر لیں۔ آپؐ نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا۔ اپنی کمزوری اور بزدلی کے سامنے گھٹنے ٹیک کر جب کوئی شخص غصہ پی جائے تو یہی غصہ جسم کی ہڈی ہڈی میں اس طرح پیوست ہوجاتا ہے کہ آہستہ آہستہ اپنے قدم پھیلانے لگتا ہے۔ پھر اچانک بغض وحسد، کینہ کپٹ کی شکل میں اتنی تیز شعاعیں لے کر نمودار ہوتا ہے کہ انسان ان کی تاب نہ لاکر کینہ پروری کے بوجھل پن کے احساس کا شکار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے ان تمام چیزوں سے منع فرما دیا جو بغض و حسد کی پیداوار میں معاون وممد ثابت ہوا کرتی ہیں۔
محبت والفت اور اخوت وبھائی چارگی پر ابھارتے ہوئے آنحضرت نے یہ تعلیم دی: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اس وقت تک جنت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو۔‘‘
ایک دفعہ صحابہ کرامؓ نے آپؐ سے دریافت کیا کہ لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: ہر مخموم القلب اور صدوق اللسان یعنی سچ بولنے والا۔ آپ سے لوگوں نے پوچھا: صدوق اللسان کو تو ہم جانتے ہیں لیکن مخموم القلب کیا ہے؟ جواب ملا: مخموم القلب اسے کہتے ہیں جو حقیقتاً متقی ہو، گناہ اور بغاوت اس میں نہ پائی جاتی ہواور نہ ہی بغض و حسد اس کے رگ و ریشہ میں رچا بسا ہو۔ اگرچہ جان قفس عنصری سے پرواز کیوں کر ہو جائے مگر اخلاق کی اعلیٰ اقدار پر ذرہ برابر بھی ضرب نہیں آنے دیتے۔، تحریر طیبہ ضیائ چیمہ، بشکریہ نوائے وقت

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website