کہتے ہیں سچ کڑوا ہوتا ہے، شاید اسی لئے سچ نہ ہی بولا جاتا ہے اور نہ ہی سنا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میڈیا پر سچ کا اتنی بار ذکر کیا جاتا ہے کہ جھوٹ بھی سچ دکھائی دینے لگتا ہے۔ کہنے کو تو اکثر بادام بھی کڑوے نکلتے ہیں۔ اب پتا نہیں بادام زیادہ کڑوے ہوتے ہیں کہ سچ۔ یہ تو چکھنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے۔ جس طرح بادام مضبوط چھلکے کے خول میں چھپا ہوتا ہے بالکل اسی طرح سچ بھی جھوٹ کے درمیان چھپا ہوتا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اسے کیسے حاصل کرتے ہیں۔
سیاستدان عوام کو کتنے بھی کڑوے گھونٹ پینے پر مجبور کردیں لیکن سچ کی کڑواہٹ کبھی محسوس نہیں ہونے دیتے اسی لئے وہ کبھی بھی سچ نہیں بولتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کوئی سیاستدان غلطی سے سچ بول جائے تو کوئی اسے سچ نہیں مانتا کیونکہ عوام سیاستدانوں کے ہر جھوٹ کو سچ سمجھتی ہے۔ اس بات کا احساس سیاستدانوں کو بھی ہوتا ہے کہ عوام کی نفسیات کیا ہے۔ انہیں پتا ہے کہ عوام میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو پر یقین رکھتی ہے۔ لہٰذا میٹھی میٹھی باتیں اور سبز باغ دکھا کر وہ عوام کا دل جیت لیتے ہیں اور جو سیاستدان سچ بول کرعوام کا منہ کڑوا کرتے ہیں عوام انہیں مسترد کردیتی ہے۔
جھوٹ بولنے پر کچھ لوگوں کو اتنا عبور ہوتا ہے کہ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہوں نے جھوٹ گھڑنے میں ڈگری لی ہو۔ ایسے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ کانوں پر یقین نہیں آتا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟ اسی لئے اکثر کانوں کو ہاتھ لگا کر منہ کھول کر یقین کرنا پڑتا ہے کیونکہ ’عادت ہے ہم کو ایسے جینے کی‘۔
کہتے ہیں کہ ایک سیاستدان سیب کھا رہے تھے، پوچھا کہ کیا کھا رہے ہیں تو بولے کیلا کھا رہا ہوں۔ ایک اور سیاستدان ہیں جو بات بات پر قرآن اٹھا لیتے ہیں۔ اب پتا نہیں وہ قرآن پڑھنے کے لئے اٹھاتے ہیں یا صرف ہمیں دکھانے کے لئے کہ قرآن پڑھو۔
ہماری پولیس کو سچ اگلوانے کا بہت شوق ہے۔ اسی لئے وہ جرم ہونے سے بھی ایک گھنٹہ پہلے چور کو پکڑ کر سچ اگلوا لیتے ہیں اور پھر چھوڑ کر خبردار کردیتے ہیں کہ خبردار! اگر اب سچ بولا تو اندر کردیں گے۔ سچ بولنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی سزا اب تک متعین نہیں کی جاسکی لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ جرم ناقابل معافی ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس کی سزا سخت سے سخت ہونی چاہیئے تاکہ آئندہ کوئی مذاق میں بھی سچ نہ بولے۔ آج کل تو لوگوں نے عادت ہی بنالی ہے کہ مذاق میں سچ بولیں گے اور سنجیدہ ہوں تو بڑی معصومیت سے جھوٹ بولتے رہیں گے۔
جیسے کسی سے پوچھو کیا حال ہیں؟ جواب ملے گا بہترین، چاہے اندر آگ کے بھانبھڑ جل رہے ہوں۔ زیادہ تر جھوٹ کی فنکاریاں تعریف کرتے وقت دکھانی پڑتی ہیں۔ بیگم نے پوچھ لیا کیسی لگ رہی ہوں؟ اب تعریف کے پُل باندھنا شوہر کا کمال ہے، چاہے اس پُل کے لیے اسے کوئی ستون ملے یا نہ ملے۔
سچ بولنا ایک موذی بیماری ہے، جسے یہ بیماری لگ جاتی ہے سب اس سے دور بھاگتے ہیں۔ تعریف ایسے لوگوں سے ہوتی نہیں اور اس معاملہ میں انہیں کنجوس کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگ زیادہ ترقی بھی نہیں کرپاتے کیونکہ ان کے پاس نہ ہی مکھن ہوتا ہے اور نہ ہی پالش کہ یہ کسی کو لگا سکیں۔
ہوٹل اور قہوہ خانوں میں لکھا جانا چاہیئے کہ ’’سچ بول کر اپنا اور دوسرے کا وقت ضائع نہ کریں‘‘ کیونکہ کوئی آپ کی بات پر یقین نہیں کرے گا۔
کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں لوگ جھوٹ بولتے تھے تو مرجاتے تھے، لیکن اب تو چھینک تک نہیں آتی۔ جھوٹ اور سچ دودھ میں پانی کی طرح اس طرح دستیاب ہیں کہ خالص کا پتا ہی نہیں چلتا کہ دودھ کون سا ہے اور پانی کونسا؟
مجھے تو اکثر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب ہم سچ سننا نہیں چاہتے تو پھر ہم سچ بولتے ہی کیوں ہیں؟ شاید ہم سچ بول کر خود کو سچا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو جھوٹا۔ لیکن ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ سچ تو روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے اور جھوٹ کی ضرورت پیش آتی ہے، سو پردوں میں چھپنے کے لیے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ میرا کام تھا آپ کو بتانا، اب آگے آپ کی مرضی ہے۔