پچھلے برس میں نے نظم لکھی تھی
’’چھاچھرو میں دسہرہ مناتے ہوئے
لوگ پوچھ رہے ہیں
کامنا کو کل مسلمان کر لیا گیا تھا
آج اس کی کوئی خبر ہے‘‘
چونکہ شاعری تو ہر زمانے کا عکس ہوتی ہے مگر یہ شاعری ہمارے دوست شاعر اس لئے نہیں کرتے کہ انہوں نے مشاعرے پڑھنا ہوتے ہیں۔ وہاں بھی مجھے یقین ہے کہ اگر ایسے مضامین شعروں میں لائے جائیں تو سامعین اب بہت مختلف موضوعات نہ صرف سننا چاہتے ہیں بلکہ اظہار کرکے افتخار عارف سے ’’کب تماشہ ختم ہوگا‘‘ اس لئے سنتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے ملک میں روز روز کے تماشوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ بالکل اس طرح عقیل عباس جعفری کی غزل کی ردیف ہے ’’نامعلوم افراد‘‘ کراچی کا حزنیہ جو پچھلے برس تک چل رہا تھا۔ وہ ساری تفصیل اس غزل کے ذریعہ سب کے سامنے آ جاتی ہے۔ اسی طرح ایک نوجوان شاعر نے لکھا تھا کہ لوگو فٹ پاتھ پر مت چلو، یہاں سوئے ہوئے غریبوں کے خواب رکھے ہوئے ہیں۔
آپ لوگ کہیں گے میں آج آپ کو دکھی کرنے کے موڈ میں ہوں جبکہ آپ بھی دکھی ہیں کہ کبھی بدین کی، کبھی نوشہرو فیروز کی، کبھی شکارپور کی، کبھی گھوٹکی کی لڑکی غائب ہوتی ہے، پھر اسکے مسلمان ہونے کے شادیانے بجتے ہیں۔ ساتھ ہی تصویر آ جاتی ہے کہ اس نے شادی شدہ آدمی سے شادی کر لی ہے۔ چھ ماہ بعد وہ لٹی پٹی لڑکی بازیاب ہو کر خود ہی گھر پہنچ جاتی ہے کہ اب تو رو پیٹ کر والدین صبر کر چکے ہیں اور پھر اس کو دیکھ کر کلیجے سے نہیں لگاتے۔ عام طور پر ایسی لڑکیوں کو سننا پڑتا ہے ’’آ گئی ہو منہ کالا کر کے‘‘ پہلے میں نے کیلاش کی لڑکیوں کے بارے میں لکھا بلکہ دنیا بھر میں دکھایا تھا کہ وہاں بھی لڑکیاں اغوا کی جا رہی ہیں۔اس کے شور و غوغا پر یونیسکو نے بھی احتجاج کیا اور ان کے قبیلے کو محفوظ رکھنے کیلئے حکومت پاکستان کو اشارہ بھی کیا۔ آپ سب کو یاد ہو گا کہ حیدرآباد دکن سے لڑکیاں اغوا کر کے خلیجی ممالک میں فروخت کی جاتی تھیں۔ بات اتنی پھیلی کہ اس موضوع پر ہمارے دوست ساگر سرحدی نے فلم ’’بازار‘‘ بنائی تھی۔ ہر چند فلم بنانے سے اس کاروبار میں کچھ کمی تو آئی مگر آج بھی ہمارے مزاروں کے احاطے سے بہت سی لڑکیاں اغوا ہوتی ہیں۔ کہیں وہ ڈانسنگ گرلز بن جاتی ہیں اور کہیں راتیں آباد کرتی ہیں۔ اس پر تحقیقی کتاب فوزیہ سعید نے لکھی، جس کے اردو، مراٹھی اور ہندی میں تراجم ہو چکے ہیں۔
کبھی اس جہاز میں سفر کریں جو سری لنکا جا رہا ہو یا وہاں سے آ رہا ہو، آدھی سے زیادہ سواریاں وہ لڑکیاں ہوتی ہیں جو دبئی کی ریاستوں میں نوکریاں کر رہی ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔یہاں مجھے ایک کالم نگار کی تحریر یاد آئی۔ انہوں نے کہا کہ لندن میں ایک سروے ہوا ہے۔ جس میں کارکن عورتوں سے پوچھا گیا کہ اگر انہیں گھر بیٹھے ساری آسائشیں میسّر ہوں تو کیا وہ پھر بھی کام کریں گی؟ جواب میں بتایا کہ اکثر عورتوں نے کہا ہم بالکل گھر میں رہ کر عیش کریں گی مگر کچھ عورتوں نے کہا کہ وہ اپنے تجربے، علم اور دماغ کو گھر بیٹھ کر ضائع نہیں کریں گی۔
ہمارے ملک میں بھی گھر میں بیٹھنے والی بیگمات کے گھروں میں صفائی کرنے والی، کپڑے دھونے والی، کپڑے استری کرنے والی، کھانا پکانے والی اور بچّوں کو سنبھالنے والی مائی الگ ہوتی ہے۔ وہ خوشحال گھرانے کی خواتین دن کو 11 بجے بازار میں نئے ڈیزائن دیکھنے، پھر بیوٹی پارلر میں فیشل کروانے جبکہ دفتروں اور کھیتوں میں کام کرنے والیاں تو دفتر، بچّے اور میاں بھی ایسے تقسیم کرتی ہیں کہ خود تھک جائیں مگر کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں۔ مگر یہ سب باتیں انتہا درجے کی ہیں۔ آج کل تو میڈیا بھی یہ جتانے لگا ہے کہ گھر کے کام مل جل کر کرنے چاہئیں۔ سب چینل اغوا شدہ لڑکیوں کی کہانی سنا رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے کیا اس شہر کی مقامی کونسل کے لوگ اقدامات نہیں کر سکتے؟ مگر روئیں کہاں کہاں۔ استاد کو بہاولپور میں ایک نالائق شاگرد نے چھریوں کے وار سے ختم کردیا۔ کمال یہ ہے کہ دوسرے لڑکے باہر کھڑے اس کو اکسا رہے تھے۔ یہ ہے مہذّب معاشرہ۔ مجال ہے کہ کسی مذہبی جماعت کی طرف سے اس حرکت کی مذمت کی گئی ہو۔ ہندو بچیوں کے اغوا کی بھی کسی نے مذمت نہیں کی۔ یہ سبق سیکھا ہے ہم نے نیوزی لینڈ سے؟