’’قلم، تلوار سے زیادہ طاقتورہے۔‘‘ یہ جملہ سب سے پہلے 1839 میں ناول نگار اور اداکار ایڈورڈ بلورلیٹون نے اپنے تاریخی کھیل کارڈنل رچیلیو میں لکھا تھا۔ قلم نے نہ صرف دنیا کے سوئے ہوئے لوگوں کو جگایا بلکہ دنیا بھرمیں انقلاب برپا کیے جن کی تاریخ پڑھی جائے تو انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ تحریروں کی مدد سے دنیا میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ عوام نے ترقی کی، جابر حکمرانوں کو پیچھے دھکیلا، سوئی ہوئی قوموں کو جگایا، حقوق کےلیے آواز بلند کرنے کی جانب راغب کیا، قوموں کو امید دلائی، انہیں حوصلہ دیا، امن قائم کیا، پیغامات دیئے۔ غرض یہ کہ ہر دور میں قلم کی طاقت کا ڈنکا بجا ہے اور دنیا نے اسے تسلیم بھی کیا ہے۔
قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ محض ایک کہاوت ہی نہیں بلکہ حقیقت بھی ہے جسے متعدد اسکالرز اور مصنفین نے بیان کیا ہے جب کہ تاریخ اس کی گواہ بھی ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
معروف اسکالر رابرٹ برٹن کے مطابق لفظ کی مار تلوار کے وار سے زیادہ گہرا زخم لگاتی ہے۔
معروف ڈرامہ نگاراور مصنف جارج وِیٹ اسٹون کے مطابق قلم کا حملہ نیزے کے وار سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
مشہور صوفی اور شاعر مولانا جلال الدین رومی کے مطابق انسان اپنی آوازکے بجائے الفاظ کو بلند کرے کیونکہ لفظوں کی بارش ایسی بارش کی مانند ہے جو محض گرجتی نہیں بلکہ پھول اگاتی ہے۔
فرانسیسی مؤرخ اورمصنف والٹیئر کے مطابق قلم کو تھامنا بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے آپ کسی جنگ کا حصہ ہوں۔
سولہویں صدی عیسوی کے معروف جرمن فلسفی مارٹن لوتھر نے قلم کی طاقت کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ اگر دنیا میں تبدیلی چاہتے ہیں تو قلم اٹھایئے اور لکھنا شروع کردیجیے۔
قلم سے اظہار رائے کےلیے لکھنے والے کو اصولی طور پر ہر اس جگہ لکھنا چاہیے جہاں وہ لکھنا چاہتا ہو۔ اس طرح کی پابندیاں کہ یہاں لکھو یا وہاں نہ لکھو، بے جا اور بے معنی سی لگتی ہیں؛ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ پابندیاں قلم کو خریدنے کی مانند ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک ہی پلیٹ فارم کو استعمال کرکے آپ کس حد تک اپنی آواز دوسروں تک پہنچاسکتے ہیں؟ کیا آپ اپنی بات، اپنی رائے، کسی بھی حوالے سے اپنا اظہارِ خیال انہی لوگوں کو بار بار دینا چاہیں گے یا اس کے بر عکس آپ یہ چاہیں گے کہ آپ کی سوچ دوسرے پلیٹ فارمز پر مختلف اور زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں؟ یہ بات، قطع نظر کہ اُس تحریرمیں دم ہویا نہ ہو، وہ متاثرکرنے والی ہو یا نہ ہو، وہ کسی کے ضمیرکو جھنجوڑے یا نہیں، وہ کسی کو سبق سکھائے یا نہیں، وہ کسی کےلیے کسی بھی حد تک کام کی تحریر ہو یا نہیں؛ ان ساری باتوں سے بالکل ہٹ کر یہ بنیادی سوال اب بھی قائم ہے کہ قلم کو قید کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟
کہنے کو ہر طرف ایک ہی ڈنکا بجتا ہے کہ سب کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔ دستورِ پاکستان کی شق 19 کے مطابق بھی ایسا ہی ہے کہ ہمارے ملک میں تمام شہریوں کو آزادئ اظہار کا حق ہے۔ لیکن جب لکھنے لکھانے کی بات کی جائے تو یہ آزادی شاید محض اپنے اپنے اداروں کےلیے محدود ہے۔ خبردار! ہوشیار! نہ اس سے آگے اور نہ ہی اس سے پیچھے۔ اس طرح کی پابندیوں کے بعد پھر جو قلم کی طاقت کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں تو وہ محض اپنے اپنے اداروں کے گرد ہی گھومتے ہیں اور گھومتے رہیں گے، اگر یہی طریقہ اور پالیسیاں رہیں تو۔
کتنی عجیب بات ہے کہ اداراہ جو پابندیاں اپنے ملازمین پر لگاتا ہے، وہ دوسرے لکھنے والوں کےلیے یا اپنے بڑے یا سینئرصحافیوں کےلیے عضوئے معطل بن کر رہ جاتی ہیں۔ حالانکہ اصولی طور پر پالیسیاں تو وہ ہوتی ہیں جو سب پر لاگو کی جائیں کہ یہاں کام کرنے والا اگراپنے قلم سے کہیں اور کےلیے نہیں لکھ سکتا تو کسی اور ادارے میں کام کرنے والا بھی آپ کے ادارے میں نہیں لکھ سکتا۔ اسی طرح ادارے میں کام کرنے والا چھوٹا ملازم ہو یا بڑا، سب پرایک ہی طرح کی پالیسی لاگو کی جائے تو پھر واقعی ’’پالیسی‘‘ ہی کہلائے گی جس میں اچھا خاصا وزن بھی ہوگا۔ مگر افسوس صد افسوس، ایسا کچھ بھی نہیں!
اس بارے میں پاکستان کے معتبر اور کہنہ مشق صحافی کیا کہتے ہیں؟ ملاحظہ کیجیے:
جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق چیئرمین، پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کے مطابق اداروں کی جانب سے لگائی جانے والی یہ پابندیاں اخلاقی طور پر درست نہیں جب کہ دنیا بھر میں ایسی پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ایکسپریس کے میگزین ایڈیٹر اور معزز و سینئر صحافی احفاظ الرحمن صاحب سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب اصول کی بات کی جائے تو ٹھیک ہے کہ ایک فل ٹائم (کل وقتی) ملازم کو کہیں اور نہیں لکھنا چاہیے؛ لیکن اصول سب کےلیے ایک ہونا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ اصول صرف چھوٹے صحافتی کارکنان اور کم تر درجے کے ملازمین کےلیے ہو جبکہ وہ جو اپنے لکھنے لکھانے یا کسی بھی وجہ سے مشہور (ورکنگ جرنلسٹ) ہوں، انہیں ان اصولوں سے استثنی حاصل ہو۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، ایسا ہرگزنہیں ہونا چاہیے۔
دوسری بات یہ کہ لکھنے والا اگر اپنے ادارے کے علاوہ کسی اور ادارے کےلیے بھی لکھنا چاہے تو وہ اپنی شناخت کیوں بدلے؟ کیا شناخت بدلنے کےلیے ہی اِسے شناخت ملی تھی؟ یا انسان کی شناخت اتنی ہی معمولی ہوتی ہے کہ اسے پالیسی کے لحاظ سے تبدیل کیا جاسکے؟
تو قلم وہ چیز ہے کہ جسے قید کیا ہی نہیں جاسکتا، جسے لکھنے کےلیے روکا نہیں جاسکتا چاہے وہ اپنے اداروں میں قید کرنے کی بات ہو یا کہیں اور کےلیے۔
سراج اورنگ آبادی نے کیا خوب لکھا ہے:
شرح بے تابی دل نیں ہے قلم کی طاقت
تپش شوق کے طومار کوں کوئی کیا جانے
اور کیا خوب لکھا شفا کجگاؤنوی نے بھی کہ:
اک قلم کی طاقت پر ہم یہ جنگ جیتیں گے
حوصلوں کی وسعت ہے زندگی کے دامن میں