کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے شہری علاقے تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں ۔ موٹر ویز ، پختہ سڑکیں ، طویل ترین پل ، فلائی اوورز اور کیا کچھ نہیں بن رہا مگر اسی ملک کے بالائی علاقوں کے لوگ پتھروں کے دور میں رہنے پر مجبور ہیں۔
ہزارہ ڈویژن کا شمار بھی ایسے ہی غیر ترقی یافتہ علاقوں میں ہوتا ہے ۔ یہاں کے عوام آج بھی آمدورفت کے لیے پر خطر، خود ساختہ، نہایت غیر محفوظ چیئر لفٹس کے سفر پر مجبور ہیں۔
ہزارہ ڈویژن کے متعدد دیہی علاقے بلند پہاڑوں، برساتی نالوں، ندیوں اور دریاؤں کے درمیان واقع ہیں۔ ان علاقوں میں پختہ سڑکوں کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت دریا،، ندی ،نالوں اور پہاڑوں کو عبور کرنے کے لیےبہت ہی غیر محفوظ چیئر لفٹسں نصب کی ہیں۔ کچھ علاقوں میں چند مضبوط لکڑیوں کو باندھ کر ایک رسے کی مدد سے خطرناک انداز میں اسے ہاتھ سے بھی چلایا جاتا ہے۔
مختلف علاقوں میں ان لفٹوں کو علیحدہ علیحدہ ناموں سے پکارہ جاتا ہے، کہیں انہیں ڈولی اور ٹرالی کہاجاتا ہے تو پشتو بولنے والے اسے زانگو کہتے ہیں لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ پورے خیبر پختونخوا میں اس طرح کی لفٹوں کی مانیٹرنگ یا جانچ پڑتال کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
تحصیل ناظم بٹگرام نیاز خان ترند کا کہنا ہے کہ’’یہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو اسکی مانیٹرنگ کر رہا ہویا اسےکنٹرول کر تا ہو۔ اس تمام نظام میں حکومت کا کچھ کنٹرول نہیں ہے۔‘‘
انہوں نےانکشاف کیا کہ ان لفٹوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نہ ڈسٹرک گورنمنٹ ہی کچھ کرتی ہے اور نہ ٹاؤن میونسپل یا کوئی دوسرا ادارہ دلچسپی لیتا ہے۔”
چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کے باعث متعدد بار مقامی لوگوں کی تیار کردہ ان چیئر لفٹوں کے حادثات میں درجنوں قیمتی جانیں جا چکی ہیں۔ ساتھ ہی لفٹ خراب ہونے سے مرد خواتین اور بچے گھنٹوں ہوا میں لٹکے رہے ہیں۔
ان افراد کو مناسب سفری سہولیات کب فراہم کی جائیں گی اس بات کا دارومدار ارباب اختیار کی عوامی مسائل کے حل کرنے کی خواہش پر منحصر ہے ۔