کوئٹہ: ہزارہ برادری ٹارگٹ کلنگ ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو 15 دن میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل بینچ نے ہزارہ برداری کی ٹارگٹ کلنگ اور ینگ ڈاکٹروں کے کیس سمیت مختلف کیسز کی سماعت کی۔ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران آئی جی بلوچستان، چیف سیکریٹری، ایف سی حکام اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ عدالت پیش ہوئے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے پاس الفاظ نہیں کہ ان بدقسمت واقعات کی مذمت کرسکیں، میرے مطابق یہ نسل کشی ہے جس پر مجھے سومو ٹو نوٹس لینا پڑا، ہم نے ہزارہ برادری کی جان ومال کی حفاظت کرنی ہے، تمام ایجنسیاں رپورٹ دیں کس طرح یہ سب کچھ ہورہا ہے۔
چیف جسٹس نے اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا 20 سال سے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے آج تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی، آئی جی ایف سی کہاں ہیں جس پر نمائندہ آئی جی ایف سی نے بتایا کہ وہ اسلام آباد میں ہیں ان کی جگہ میں پیش ہوا ہوں، چیف جسٹس نے آئی جی پولیس سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے رپورٹ بنائی ہے جس پر آئی جی پولیس نے ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ اگر حکومت ہزارہ برادری کو تحفظ نہیں دے سکتی تو انہیں جینے کا راستہ تو دے جب کہ سیکورٹی پلان 2013 کو بہتر بناکر اس پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کس سطح پر ان معاملات کے لیے بات کی جائے، جب یہ معاملات طے ہوں گے تو اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی ہمیں دیکھنا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو 15 دن میں اپنی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تمام ایجنسیاں رپورٹ دیں کہ کس طرح یہ سب کچھ ہورہا ہے، عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔ ینگ ڈاکٹروں کے کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سیاست کرنیوالے ینگ ڈاکٹرز کو فارغ کردیں، ینگ ڈاکٹرز کو کوئی وظیفہ نہ دیا جائے، بدمعاشی نہیں چلےگی، جائیں جا کر ہڑتال کردیں، پہلے اپنے فرائض سر انجام دیں پھر ڈیمانڈ کریں۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت کی سخت سرزنش کرتے ہوئے پوچھا کہ ینگ ڈاکٹروں کے معاملات کے حوالے سے کیا کیا جس پر سیکرٹری صحت نے بتایا کہ پانچ سو مزید ڈاکٹر عارضی طور پر بھرتی کیے جائیں گے جو بات ینگ ڈاکٹروں کے منہ سے نکلے وہ پوری نہیں ہوسکتی۔