تحریر: محمد عبداللہ بھٹی
80کے عشرے میں حضرت علی ہجویری (المعروف داتا صاحب) کی پرانی مسجد کو شہید کر کے بڑی مسجد اور کھلے صحن کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری تھا دوران کھدائی بنیادوں میں بہت ساری پرانی قبروں کا انکشاف بھی ہو ا زیادہ تر قبروں میں پرانی اور بوسیدہ ہڈیاں ملیں جن کو پورے احترام کے ساتھ دوبارہ دفن کر دیا گیا۔ اِسی دوران ایک ایمان افروز حیران کن واقع پیش آیا جس نے اہل ایمان کے دلوں کو اور مضبوطی دی۔ دوران کھدائی ایک جگہ سے ایسا جسم مبارک ملا جو برسوں پہلے دنیا فانی سے جا چکا تھا لیکن آج بھی ترو تازہ لگ رہا تھا جیسے آج ہی فوت ہو اہو ‘زیادہ حیرت والی بات یہ تھی کہ یہ کسی انگریز کا جسم تھا جس کے نورانی چہرے پرداڑھی مبارک بھی تھی ۔ یہ واقعہ سب کے لیے ہی بہت حیران کن تھا ۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ یہ ایک گورے کاجسم پاک ہے جو کہ برطانیہ کا رہنے والا تھا تحقیق سے پتہ چلا کہ 1936میں برطانیہ کے لینارڈ خاندان سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ جب کشف المعجوب کا انگریزی ترجمہ پڑھا تو کتاب کی حقانیت اور سچائی سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے ‘دلوں میں عشق الٰہی کی ایسی شمع روشن ہو گئی کہ بر طانیہ چھوڑ کر تلاش شیخ اور تصوف کے اسرار و رموز سیکھنے کے لیے ہندوستان آگئے ‘تلاشِ حق اور تلاشِ شیخ کے لیے ملک کا چپہ چپہ چھان مارا پھر جب خالق ِ بے نیاز کو دونوں بھائیوں پر رحم آیا تو اُن کو حیدر آباد میں مولانا سید محمد ذوقی شاہ کا د ر دکھا دیا دونوں بھائی مولانا ذوقی شاہ صاحب کے مرید ہوئے اور اپنے شیخ کی زیرنگرانی سلوک الیٰ اللہ طے کئے اور اپنی روحوں کو عشقِ الٰہی اور روحانیت کے اسرار و رموز سے روشن کیا شیخ نے اپنی نگاہ خاص سے اُن کے مرُدہ دلوں کو روحانیت کی حرارت بخشی بڑے بھائی کا اسلامی نام فاروق احمد رکھا گیا جو مرشد سے روحانیت کی تربیت لے کر لاہور میں سید علی ہجویری کے دربار مبارک پر آگیا یہاں آکر تاریخ کے سب سے بڑے چشمہ معرفت سے عرصہ دراز تک فیض یاب ہو تا رہا اور لوگوں کی بھی تربیت کرتا رہا۔
یہاں کی شدید گرمی کی تاب نہ لا سکا اور اسلامی زندگی کے آٹھویں سال جامِ شہادت نوش کیا اور حضرت علی ہجویری قدس سرہ کے آستانہ مبارک میں دفن ہوئے کئی سالوں کے بعد جب مسجد کا توسیعی کام ہو رہا تھا تو آپ کا جسم مبارک ویسے کا ویسا تھا یہ حضرت علی ہجویری کی ایک اور زندہ کرامت تھی ۔ فاروق احمد کے جسم مبارک کو دوبارہ ایک خوبصورت کمرے میں دفن کیا گیا سرہانے سنگ مرمر کی خوبصورت تختی بھی لگائی گئی جس پر آپ کی ساری تفصیل درج ہے احقر کئی بار اِس کمرہ مبارک اور قبر مبارک کی زیارت کر چکا ہے ‘اہلِ دل آج بھی فاروق احمد صاحب کی قبر مبارک پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں ۔فاروق احمد صاحب کے چھوٹے بھائی جن کا اسلامی نام حضرت شہید اللہ فریدی نے ریاضت ،مجاہدوں کے بعد سلوک الیٰ اللہ میں تکمیل حاصل کی اور خلافت سے نوازے گئے ۔ اِس کے بعد تقریباً عرصہ تیس برس تک مریدین کی تربیت میں مشغول رہے شدید گرمی اور روحانی مصروفیات کی وجہ سے دل کے مریض ہو گئے اور 1978میں واصل باللہ ہوئے آپ کا مزار مبارک کراچی کے قبرستان سخی حسن میں مرجع خلائق ہے ۔حضرت شہید اللہ صاحب کشف المعجوب مطبوعہ مکتبہ المعارف لاہور کے دیباچہ میں شہنشاہ لاہور علی ہجویری کو شاندار الفاظ میں اِس طرح خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔”حضرت علی ہجویری کی شہرت کا دارومدار کشف المعجوب ہی نہیں ہے بلکہ آپ کا لاہور میں وہ مزار مبارک ہے جہاں پر ملک ہندوستان اور دیگر ہمسایہ ملکوں کے زائرین کا ہجوم رہتا ہے اور روحانیت کے پیاسے اپنی روحانی پیاس بجھاتے ہیں۔
کشف المعجوب کو تو چند لوگوں نے پڑھا ہو گا۔ لیکن آپ کی روحانیت سے لاکھوں سیراب ہو رہے ہیں لہذا آپ کی شہرت اور عظمت کا دارومدار صرف کتابیں اور تذکرے نہیں بلکہ آپ کی بے پناہ روحانی قوت اور کشش ہے جس سے ہر کس و ناکس آپ کی طرف کھینچا چلا آتا ہے ”۔محترم قارئین کسی معتبر تاریخ سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ شہنشاہِ لاہور حضرت علی ہجویری کا خلیفہ اکبر کون تھا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں تصوف کے عظیم بزرگ راہنما حضرت داتا گنج بخش کی شہرہ آفاق کتاب کشف المعجوب ہی آپ کی خلیفہ اکبر ہے اور قیامت تک سلسلہ ہجویر جارہ و ساری رہے گا ۔ تصوف پر لکھی جانے والی عربی زبان کی پہلی کتاب شیخ حارث المحاسی کی ”کتاب الرعایہ ”ہے۔
فارسی میں یہ شرف کشف المعجوب کا حاصل ہے تصوف کے ماخذ میں اِس کتاب کو سندد کادرجہ حاصل ہے ۔ یہ کتاب سید علی ہجویری نے اپنے ہم وطن ابو سعید غزنوی کی درخواست پر لکھی اگرچہ آپ کی ساری کتابیں غزنی میں رہ گئی تھیں ۔ لیکن آپ نے اپنی بے پناہ قوت حافظہ اور مسائل تصوف پر عبور کی بدولت ایسی مکمل اور بھر پور کتاب لکھی ہزار سال گزرنے کے بعد بھی کوئی کتاب آپ کی کتاب کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے یہ کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ یہ کتاب فارسی میں تصوف پر پہلی کتاب ہے اور ارباب ِ علم و فن کا قول ہے کہ پہلی کوشش کرنے والا مشکل ترین راستے سے گزر کر آنے والی نسلوں کے لیے راہ ہموار کرتا ہے لیکن حیرت ہے کہ ہزار سال گزرنے کے باوجود بھی یہ کتا ب حر ف آخر کا درجہ رکھتی ہے ۔صدیوں کا غبار بھی اِس کتاب کی شان کو دھندلا نہ سکا صاحب کتاب نے فقر و تصوف پر بڑے خوبصورت اور روح پرور پیرائے میں وضاحت اور تشریح کی ہے ۔عرف عام کے مطابق اور لغوی مفہوم کے اعتبار سے تو فقر مہتاجی ،غربت اور تنگدستی کا مترادف ہے جبکہ صوفیاء کے ہاں یہ ایک ایسا مقام ہے کہ جب اس پر کوئی بندہ فائز ہو جا تا ہے تو اس کے نزدیک سونے کی ڈلی اور مٹی کے ڈھیلے میں چنداں فرق نہیں رہتا اور وہ خدا کا اِس قدر مہتاج بن جاتا ہے کہ ساری دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
اِسی طرح تصوف کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ درود و وظائف ، چلہ ّ کشی تسبیح گردانی اور کشف و کرامت کے چرچے کا نام ہے جب کہ قدیم اور حقیقی صوفیاء کے نزدیک تصوف ، مال نہیں ایک حال ہے جو بندے پر وارد ہو تا ہے جس سے اِس کے ظاہر و باطن کا تضاد دور ہو جاتا ہے اور قلب ِ و دماغ تزکیہ و طمانیت کا مرکز بن جاتا ہے اِسی طرح اثبات ِ فقر کے عنوان میں کہتے ہیں فقیر کون ہے فقیر وہ ہے جس کی ملکیت میں کوئی چیز نہ ہو اور کسی چیز کے حاصل ہونے سے اُسے کوئی فرق نہ پڑے وہ اسبابِ دنیا کے موجود ہونے سے اپنے آپ کو غنی نہ سمجھے اور نہ ہونے سے خود کو مہتاج نہ جانے یعنی اس کی نظر میں اسباب کا ہونا نہ ہونا برابر ہو ۔ ہر دور کے اولیا ء اور بڑے مشائخ کا قول مبارک ہے۔
اگر کسی کو مرشد کامل کی تلاش ہواور پوری کوشش کے بعد بھی کوئی روحانی راہنما نہ ملتاہو تو وہ خلوصِ نیت کے ساتھ کشف المعجوب کا مطالعہ کرے انشاء اللہ ہدایت پا جائے گا۔ایک ایسی کتاب جو صدیوں سے لاکھوں متلاشیانِ روحانیت اور قربِ الہٰی کے مسافروں کے بے نور اندھی روحوں اور دماغوں کو روشن کر رہی ہے ۔ یہ قدرت ِ خداوندی کا کرشمہ ہے کشف المعجوب باطنی اندھوں کے لیے اکسیر کا مقام رکھتی ہے۔
تحریر: محمد عبداللہ بھٹی