تحریر : سجاد علی شاکر
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حیات نبی میں وہ منفرد اعزازات حاصل ہیں جو کہ کسی اور کو حاصل نہیں۔ جن میں یہ اہم ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی پیدائش کے بعد ان کی پہلی نظر حضرت محمد کے چہرہ انوار پر پڑی۔ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر ہوئی۔ بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے۔
آپ کی پرورش حضرت محمد کے گھر میں ہوئی۔ ہجرت مدینہ کے موقعہ پر بستر رسول پر بے خوف ہو کر سوئے حالانکہ مشرکین نے نعوذ باللہ آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا اور وہ آپ کے مکان کا گھیراکر چکے تھے ایسے موقع پر حضور نے حضرت علی سے فرمایا:۔” تم میرے بستر پر لیٹ جائو اور میری یہ سبز (خضریٰ) چادر اوڑھ کر سوئے رہو تمہیں ان کے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے گا”۔اس دوران مکہ والوں کی امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری بھی حضرت علی کے ذمے تھی۔ حضرت علی تقریباً تمام غزوات میں حضرت محمد کے ہمراہ تھے اور شجاعت کے بے مثال واقعات دکھائے۔
غزوہ خیبر کے موقع پر حضرت محمد ۖنے فرمایا میں کل جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دونگا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور جس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں۔ حضرت محمد ۖنے وہ جھنڈا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دیا اور آپ نے نامی گرامی پہلوان اور جنگجو مرحب کو قتل کیا اور خیبر فتح ہوا۔امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ حضرت محمد ۖکے چچازاد بھائی اور داماد تھے۔ رسول کی سب سے پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ خاتون جنت کا نکاح حضرت علی سے ہوا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سخاوت، شجاعت، بہادری، علم و ذہانت اور فیاضی میں یکتا تھے۔ آپ کی شان و شوکت اور قوت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اسد اللہ الغالب کا لقب ملا۔ کثرتِ علم اور ذہانت کی وجہ سے حضرت محمد ۖنے ارشاد فرمایا:۔(میں علم کا شہر اور علی اس کا دروازہ ہے)غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت محمد ۖنے آپ کو اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال اور مدینہ منورہ کی نگرانی کیلئے مدینہ ہی میں رہنے کا حکم دیا۔
جب لشکر روانہ ہوا تو منافقین نے حضرت علی پر طعنہ زنی کی تو آپ مدینہ سے نکل کر حضرت محمد ۖسے جا ملے لیکن آپ نے انہیں واپس مدینہ جانے کا حکم فرمایا اور کہا ”تم اس بات سے راضی نہیں کہ مجھ سے تمہیں وہی نسبت ہو جو حضرت موسیۖ سے حضرت ہارونۖ کو تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا”حجة الوداع اور حج کے فرائض سے ادائیگی کے بعد جب حضرت محمد ۖسو اونٹوں کی قربانی کیلئے قربان گاہ گئے تو آپ نے اپنے دست مبارک سے 63اونٹ ذبح کئے اور باقی 37اونٹ ذبح کرنے کی ذمہ داری حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دی۔ اس طرح آپ نے حضرت علی کو اپنی قربانی میں شریک فرمایا۔ اس کے بعد آپ کے حکم سے ہر اونٹ کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا گیا اور پھر آپ اور حضرت علی نے اسی ہانڈی میں سے کھانا تناول فرمایا اور شوربا پیا۔ حضرت محمدۖ کے وصال کے بعد ان کو غسل مبارک حضرت علی، حضرت عباس اور ان کے دو صاحبزادگان فضل اور قثم نے دیا۔ وہ خلعتِ خرقہ مبارک جس سے حضرت محمد کو شب معراج کے موقع پر نوازا گیا۔ وہ آپ نے حضرت علیکو عطا فرمایا۔ آپ کی شہادت مسجد میں ہوئی۔ آپ عبادات، صوم و صلوٰة، فیاضی، شجاعت اور علم و حکمت میں بے مثال تھے۔
روحانیت اور تصوف کے سلسلے کے شہنشاہ اور اس سلسلے کے سرچشمہ آغاز تھے۔حضرت علی کی حکومت صحیح معنوں میں اسلامی حکومت تھی اور آپ نے حکومت کی ذمہ داری اسی شرط پر قبول کی تھی کہ اسے اسلامی قالب میں ڈھالنے اور منہاج نبوت پر چلانے میں کوئی دخل انداز ہونے کی کوشش نہ کرے۔ چنانچہ آپ نے حالات کی تبدیلی اور انسانی مزاج کی تغیر پذیری کے باوجود حکومت الہٰیہ کے تقاضوں کے مطابق حکومت کی تشکیل کی اور پیغمبر اکرم کے طرز جہانبانی پر اپنی حکومت کی اساس رکھی اگرچہ آپ کا دور حکومت انتہائی مختصر تھا مگر تھوڑے عرصے میں بھی اسلامی حکومت کے خدوخال کو اس طرح نمایاں کر کے دنیاوالوں کے سامنے پیش کیاکہ دور نبوی کی تصویرآنکھوں کے سامنے دوبارہ زندہ ہو گئی۔ اگر آپ زمام حکومت اپنے ہاتھوں میں نہ لیتے تو مسلمانوں پر حکومت اسلامیہ کا مفہوم روشن نہ ہوتا اور اسے بھی مادی حکومتوں کی طرح ایک حکومت تصور کر لیا جاتا۔ حضرت علی کی اسلامی حکومت سے غرض و غایت یہ تھی کہ ایک حق کا قیام اور دوسرا باطل کا خاتمہ۔ آپ نے اپنے عہد اقتدار میں انہی دو چیزوں کو پیش نظر رکھا او راپنا زمانہ حکومت حق کی سر بلندی اور باطل و ظلم کی سرکوبی کیلئے وقف کر دیا۔
ملکی نظم ونسق کے سلسلہ میں سب سے اہم کام عمال کی تقرری کا تھا جسے آپ نے نہا یت بااہتمام خاص مد نظر رکھا۔جب کسی عامل کو مقرر کرتے تھے تو اس کو نہایت مفید اور گراں بہا نصائح کرتے تھے۔ وقتاًفوقتاً اعمال و حکام کے طرز عمل کی تحقیقات کرتے، اعمال کے اسراف اور مالیات میںان کی بدعنوانیوں کی سختی سے بازپرس فرماتے۔حافظ ابن عبدالبرنے لکھا کہ ”حضرت علیانہی لوگوں کو والی اور حاکم مقرر کرتے جو امین اور دیانت دار ہوتے۔” اسلام جو پر امن زندگی کا داعی اور حیات انسانی کا پاسبان ہے قتل ناحق کو انتہائی سنگین جرم قرار دیتا ہے۔
آپ نے آزادی فکر کا پرچم بلند کیا، ہر شخص کی فکر کو خارجی دبائو سے آزاد ہونا چاہئے تاکہ وہ خود سے اچھے برے کی تمیز کر کے راہ عمل متعین کرے۔ اگر اس آزادی فکر کو سلب کر لیا جائے تو وہ اسے ہی اچھا سمجھے گا جسے طاقت ور اچھا سمجھے اور اسے برا سمجھے گا جسے بالادست قوت برا سمجھے اور عقل و شعور سے روشنی لینے کے بجائے دوسرے کی رائے کے تابع ہو جائے گا۔ اگر فکر آزاد ہے تو عمل بھی آزاد رہے گا اور حضرت علی نے واضح کر دیا کہ دین کی بنیاد دلیل و برہان پر ہے اسے نظریاتی طور پر بھی تو منوایا جا سکتا ہے مگر قوت و بالا دستی سے نہیں۔ اس لئے کہ طاقت اور جبر واِ کراہ سے نہ عقائد میں انقلاب آتا ہے اور نہ ہی اذہان میں کوئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔
حضرت علینے انسانی حقوق کا عملاً تحفظ کرکے اسلام میں انسان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ آپ نے خدمت خلق کے ساتھ ساتھ ضرورت مندوں کو مالی امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اپنی ضرویات کو نظرانداز کرکے دوسروں کی حاجت روائی کرتے اور کسی سائل کو اپنے ہاں سے خالی نہ جانے دیتے۔ یتیموں سے اس طرح پیش آتے کہ انہیں یتیمی کا احساس نہ ہونے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت شہادت ان کے جنازے میں سینکڑوں یتامیٰ و مساکین کی تعداد سوگواری کی حالت میں موجود تھی۔
تحریر : سجاد علی شاکر
فنانس سیکرٹری پنجاب ( کالمسٹ کونسل آف پاکستان)
sajjadalishakir@gmail.com
03226390480