counter easy hit

ام المومنین حضرت عائشة الصدیقہ

Hazrat Ayesha Siddiqa

Hazrat Ayesha Siddiqa

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی
آقاۖ کا ارشاد پاک ہے۔”تم سے بہترین وہ ہے جواپنے گھروالوں کے ساتھ اچھاہے اورمیں اپنے گھروالوں کے ساتھ سب سے اچھا ہوں”۔ازواج مطہرات کے ساتھ رسول اللہۖکے لطف ومدارت کااندازہ آپ ۖکی گھریلو زندگی کے واقعات سے ہوتاہے۔ آقاۖکی پہلی بیوی حضرت خدیجة الکبریٰ جو آپۖسے عمرمیں25سال بڑی تھیں لیکن آپۖنے ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی ۔حضرت خدیجة الکبریٰ کے انتقال کے بعدآپۖکے گھرکاانتظام چلانے کے لئے کوئی خاتون نہیں تھی۔ آپۖ کی تبلیغی مصروفیات بڑھ گئیں توآپۖنے ایک بڑی عمرکی خاتون حضرت سودہ اورایک نوعمر خاتون حضرت عائشة الصدیقہ سے نکاح کرلیاآپ کانکاح نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں ہجرت سے تین سال قبل ہواہمدم مصطفیۖبننے کاشرف ماہِ شوال ہی میں ٢ہجری کوحاصل کیا۔اس وقت آپ کی عمرنوسال کی تھی آپ نے نوسال آقاۖکے ساتھ بسرکیے یعنی جب آپۖکاوصال ہوااس وقت حضرت عائشہ کی عمر١٨سال تھی آپ واحدکنواری خاتون تھیں جوآپۖکے نکاح میں آئیں۔

حضرت عائشة الصدیقہ کی ولادت مبارکہ آقاۖکی بعثت کے چارسال بعدماہِ شوال میں ہوئی۔آپ کانام عائشہ لقب صدیقہ کنیت حضورۖکی اجازت سے اپنے بھانجے یعنی عبداللہ بن زبیر کے نام پرام عبداللہ اختیارکی ۔آپ امیرالمومنین حضرت سیدناابوبکرصدیق کی بیٹی تھیں ۔آپ کی والدہ اُم رومان بنت عامرابن عویم ہیںآپ قبیلہ بنوتیم سے تعلق رکھتی تھیں ۔آپ کاسلسلہ نسب سیدة عائشہ بنت ابوبکرصدیق بن ابوقحافہ بن عامربن عمروبن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی ،آپعہدبچپن سے انتہائی ذہین اورسادگی پسندتھیں ۔آپ نے اپنی عمرمیں حضورۖکوکبھی شکایت کاموقع نہ دیااورایک وفاشعاربیوی کی حیثیت سے رہیں گھرکاساراکام خودکرتیں اگرکبھی مال کی فراوانی ہوتی بھی توراہِ خدامیں تقسیم فرمادیتیں۔

حضرت عبداللہ بن زبیر فرمایاکرتے تھے کہ میں نے ان سے زیادہ سخی کسی کونہیں دیکھا۔حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امیرمعاویہ نے ان کی خدمت میں لاکھ درہم بھیجے توشام ہوتے ہی سب خیرات کردیے اور اپنے لئے کچھ نہ رکھااس وقت آپ خودروزے سے تھیں ۔آپ میں جذبہ سخاوت اسقدروسیع تھاکہ کوئی سائل خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔آپ کاحافظہ بہت تیزاورحصول علم کابہت شوق تھا۔آقاۖسے ہرطرح کے مسائل بے جھجک معلوم کرتیں اورخواتین کی رہنمائی کرتی تھیں ۔آپ نے معلم کائنات سے تعلیم حاصل کی اسی وجہ سے اتنی بلندپایہ عالمہ ہوگئیں کہ آقاۖکے ظاہری وصال کے بعدبڑے بڑے صحابہ کرام علہیم الرضوان آپ سے مسائل دریافت فرماتے تھے۔

Hazrat-Muhammad

Hazrat-Muhammad

آقاۖپرجب وحی اترتی آپ اسے یادفرمالیتیںخلاصہ تہذیب میں ہے کہ آپ سے دوہزاردوسودس احادیث مبارکہ مروی ہیں اسی بناء پرآپ کوکثیرة الحدیث بھی کہاگیاہے آپ فن خطابت حدیث قرآن وفقہ میں بے حدماہرتھیں ۔(البدایہ والنہایہ)۔آپ بے حدزاہداورعابدہ تھیں ہرسال حج اداکرتیں غزوات میں زخمیوں کی مرہم پٹی اورزخمیوں کوپانی پلانے کی ذمہ داری اٹھاکرجہادمیں حصہ لیتی تھیں۔غزوہ بدرمیں آقاۖنے آپ کادوپٹہ میدان جنگ میں بطورعلم لہرایااسی بناء پراللہ پاک نے فتح عطافرمائی جوکہ آپ کی عظمت کی دلیل ہے۔سیدتناحضرت عائشة الصدیقہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہۖاپنی نعلین مبارک میں پیوندلگارہے تھے جبکہ میں چرخہ کات رہی تھی۔میں نے آقاۖکے چہرہ پرنورکودیکھاکہ آپۖکی پیشانی مبارک سے پسینہ بہہ رہاتھااوراس پسینہ سے آپۖکے جمال میں ایسی تابانی تھی کہ میں حیران تھی آقاۖنے میری طرف نگاہ کرم اٹھاکرفرمایاکس بات پرحیران ہو؟سیدتناحضرت عائشةالصدیقہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیایارسول اللہۖ!آپۖکے رخ ِ روشن اورپسینہ جبین نے مجھے حیران کردیاہے اس پرحضورۖکھڑے ہوئے اورمیرے پاس آئے اورمیری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیااورفرمایااے عائشہ!اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیردے تم اتنامجھ سے لطف اندوزنہیں ہوئی جتناتم نے مجھے مسرورکردیا۔(حلیة الاولیائ)۔

آقاۖنے حضرت سیدتنافاطمة الزہرا سے فرمایااے فاطمہ جس سے میں محبت کرتاہوں تم بھی اس سے محبت کروگی؟حضرت فاطمة الزہرا نے عرض کیاضروریارسول اللہۖمیں محبت رکھوں گی اس پرحضورۖنے فرمایاتوعائشہ سے محبت رکھو۔(صحیح مسلم)آپ کوساری امہات المومنین میں بعض خصوصی امتیازات حاصل تھے ۔آپ خودفرماتی ہیں کہ سب سے بڑی نعمت جس سے اللہ پاک نے مجھے سرفرازفرمایاوہ یہ ہے کہ وصال کے وقت میرالعاب دہن آپ ۖکے لعاب دہن شریف میں جمع فرمادیااورآپۖنے میرے ہی گھروصال فرمایااورآپۖکاروضہ اقدس بھی آپۖ کا گھربنا۔حضرت عائشة الصدیقہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہۖنے فرمایاکہ تم مجھے تین رات خواب میں دکھائی گئیں تھیں تمہیں فرشتہ ریشمی ٹکڑے میں لاتاتھامجھ سے کہتاتھایہ تمہاری بیوی ہیں میں نے تمہارے رخ سے کپڑاہٹایاتوتم تھیں میں نے کہاکہ اگریہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تواسے جاری یعنی پورافرمادے گا۔(مسلم،بخاری)۔

حضرت عائشہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ لوگ اپنے تحفوں کے لئے جناب عائشہ کادن تلاش کرتے تھے اس سے وہ لوگ رسول اللہۖکی مرضی چاہتے تھے فرماتی ہیں کہ رسول اللہۖکی بیویاں دوگروہ تھیں ایک گروہ وہ جس میں جناب حضرت عائشہ ،حضرت حفصہ اورحضرت سودہ تھیں اوردوسری جماعت میں ام سلمہ اوررسول اللہۖکی باقی بیویاں توام سلمہ کے گروہ نے گفتگوکی ان سے کہاکہ تم رسول اللہۖسے کلام کروکہ آپۖ لوگوں سے فرمادیں کہ جوبھی رسول اللہۖ کی بارگاہ میں ہدیہ بھیجناچاہے توآپ کوہدیہ بھیج دیاکرے حضورۖجہاںبھی ہوں چنانچہ حضرت ام سلمہ نے حضورۖسے عرض کیاآپۖنے ان سے فرمایاکہ مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف نہ دوکیونکہ سواء عائشہ کے کوئی بیوی نہیں جن کے بسترمیں ہوں اوروحی آئے ام سلمہ نے کہایارسول اللہۖمیں آپ کی ایذارسانی سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں پھرتمام بیویاں نے جناب فاطمہ کوبلایاانہیں رسول اللہۖکی خدمت میں بھیجاانہوں نے حضورۖسے عرض کیاتوفرمایااے بچی جس سے میں محبت کرتاہوں تم ان سے محبت نہیں کرتیں ؟بولیں ہاں فرمایاتوان سے محبت کرو۔(مسلم،بخاری)۔

ALLAH

ALLAH

غزوہ بنومصطلق جو٥ہجری میں پیش آیاتھاآپ آقاۖکے ساتھ سفرکررہی تھیں واپسی پرقافلے نے راستے میں ایک جگہ قیام کیا۔صبح صادق سے پہلے ام المومنین رفع حاجت کے لئے کسی گوشہ میں تشریف لے گئیں۔وہاں آپ کاہارٹوٹ گیااس ہارکی تلاش میںآپ کی دیرلگی آپ واپس آئیں توقافلہ روانہ ہوچکاتھاقافلہ والوں کوپتہ نہ لگاکہ ام المومنین موجودنہیں ہیں ۔آپ قافلہ کی جگہ واپس آکربیٹھ گئیں ایک صحابی رسول حضرت صفوان بڑے بلندکرداراورامانت دار صحابی رسولۖتھے ۔وہ قافلہ کی گری ہوئی اشیاء کوسنبھالتے تھے اورشرکائے قافلہ کی نگہداشت کرناانکے ذمہ تھاوہ جب پڑائوکے مقام پرپہنچے توام المومنین سیدتناعائشة الصدیقہ کودیکھ کرحیران ہوئے ادب احترام سے اونٹ پرسوارہونے کوکہاآپ سوارہوگئیں اورحضرت صفوان اونٹ کی مہارپکڑے ہوئے آگے آگے چلنے لگے یہاں تک کہ قافلے میں پہنچادیا۔جب منافقوں کے سردارعبداللہ ابن ابی کوا س واقعے کاعلم ہواتواس نے حضرت عائشة الصدیقہ پرتہمت لگائی جس سے چندسادہ لوح مسلمان غلط فہمی کاشکارہوگئے۔

ام المومنین کواس تہمت کابالکل پتہ نہ چلاآپ بیمارہوگئیں ایک ماہ تک بیماررہیں اس دوران میں ام مسطح کے ذریعے آپ کوپتہ چلاتوآپ کامرض اوربھی بڑھ گیا۔آپ اپنے میکے تشریف لے گئیں اوراس غم میں اتناروئیں کہ کئی رات بالکل نیندنہ آئی ۔آخرکاررحمت خداوندی جوش میں آئی وحی نازل ہوئی جس سے حضرت عائشة الصدیقہ کی طہارت،عفت وعصمت کی خودرب نے گواہی دی اورالزام لگانے والوں کے جھوٹ کاپول کھل گیا۔سورة النورکی قریباًاٹھارہ آیتیں آپ کی برات میں نازل ہوئیں ۔ان آیات کے نزول سے پہلے تمام مومنوں اورحضورانورۖکے دل ام المومنین کی پاکدامنی پرمطمئن تھے چنانچہ حضورۖنے ارشادفرمایاکہ مجھے اپنی بیوی کی پاکیزگی بالیقین معلوم ہے۔(بخاری)۔

حضرت عمر فاروق نے ارشادفرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے حضورۖکے جسم اطہرکومکھی سے محفوظ رکھاکہ وہ نجاست پربیٹھتی ہے۔کیسے ہوسکتاہے کہ رب تعالیٰ آپ کوبری عورت سے محفوظ نہ رکھتا۔حضرت عثمان غنی ذوالنورین نے فرمایاکہ رب نے آپۖکاسایہ زمین پرنہ پڑنے دیاکہ کسی کاپائوں اس پرنہ پڑے توکیسے ہوسکتاہے کہ وہ رب آپ کی اہلیہ کومحفوظ نہ فرمائے۔حضرت علی المرتضیٰ شیرخدا نے فرمایاکہ ایک جوں کاخون لگ جانے پررب نے آپ نعلین شریف اتارنے کاحکم دیاتوکیسے ہوسکتاہے کہ اب آپ کی اہل بیت کی آلودگی منظورفرمائے اسی طرح اورمخلص مومنوں اورمومنات نے آپ کی عصمت کے گیت گائے۔(خزائن وروح) قربان جائوںجب حضرت مریم اورحضرت یوسف کوبہتان لگاتوبچے گواہ مگرمحبوبہ ،محبوب رب العالمین کوبہتان لگاتوخودرب تعالیٰ گواہ،یعنی ہے سورہ نورجن کی گواہ ان کی پُرنورصورت پہ لاکھوں سلام پاک دامن عورتوں پرجوبہتان باندھتے ہیں اس کی سزاکے بارے میں سورة نورکی آیت کریمہ نازل ہوئیں۔

Holy Quran

Holy Quran

ارشادباری تعالیٰ ہے۔ “اورجوپارساعورتوں کوعیب لگائیں پھرچارگواہ معائنہ کے نہ لائیں توانہیں اَسّی 80کوڑھے لگائواوران کی کوئی گواہی کبھی نہ مانواوروہی فاسق ہیں۔(سورة النورآیت٤)غزوہ بنومصطلق میں حضرت عائشة الصدیقہ کے ہارکی گمشدگی کی وجہ سے نبی کریمۖنے پڑائوکے دوران قیام طویل کردیاتاکہ گمشدہ ہارمل جائے ۔ اس پڑائوکی جگہ بھی پانی نہ تھااورنہ ہی مجاہدین کے پاس پانی تھاتمام صحابہ کرام علہیم الرضوان پریشان تھے کہ نمازکاوقت نکلاجارہاہے اورپانی کاکوئی انتظام نہیں اس وقت آپۖپروحی نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمادی اورلشکراسلام نے صبح کی نمازتیمم کرکے پڑھی ۔آپ کی برکت سے امت کوتیمم کی سہولت ہوئی۔

آپ کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ قرآن حکیم میں پردہ کرنے کے احکامات جاری ہونے سے قبل بھی آپ پردہ فرماتی تھیں احادیث مبارکہ میں بکثرت آپ کاتذکرہ ملتاہے آپ نمازتہجدکی بے حدپابنداور نفلی روزہ بھی کثرت سے رکھتی تھیں ۔آپ کی طبیعت میں اسقدرحیاء واحترام نبیۖتھاکہ حضرت عمر کے دفن ہونے کے بعدقبرنبیۖپرکبھی بے پردہ نہیں گئیں حضرت جبرائیل بتوسط حضورۖآپ کوسلام کیا۔حضرت ابوسلمہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشة الصدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہۖنے فرمایاکہ اے عائشہ یہ حضرت جبرائیل ہیں تم کوسلام کہتے ہیں انہوں نے جواب دیاکہ ان پرسلام اوراللہ کی رحمت اوربولیں حضوروہ دیکھتے تھے جومیں نہ دیکھتی تھی(بخاری،مسلم)۔

آپ کاوصال حضرت امیرمعاویہ کے دورِحکومت میں17 رمضان المبارک 57ہجری بدھ کے روز٦٦سال کی عمرمیں مدینہ منورہ میںہوابعض شب سہ شبنہ ١٧رمضان ٥٨ بیان کرتے ہیںآپمدینے کے قبرستان جنت البقیع میں مدفون ہوئیں آپۖکے جلیل القدرصحابی حضرت ابوہریرہ نے آپ کی نمازہ جنازہ پڑھائی۔ آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ میراجنازہ رات کواٹھایاجائے اوررات ہی کودفن کیاجائے چنانچہ ایساہی عمل میں لایاگیا۔

Hafiz Kareem Ullah Chishti

Hafiz Kareem Ullah Chishti

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی
0333.6828540