تحریر : سجاد علی شاکر، لاہور
حضرت بابا بلھے شاہ کی حیات کے بارے میں مصدقہ معلومات بہت کم دستیاب ہیں۔ ابھی تک جو باتیں اس کے بارے میں منظر عام پر آئی ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق زبانی روایت سے ہے۔ ان زبانی معلومات کا تعلق بھی حضرت بابا بلھے شاہ کی صوفیانہ زندگی اور کرامات سے ہے شاعری سے بہت کم ہے۔ ان کی زندگی کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ معلومات جیسی کیسی بھی ہیں ان سے حضرت بلھے شاہ کی شخصیت کا ایک نقش قائم کیاجاسکتا ہے۔عظیم صوفی بزرگ حضرت بابا بلھے شاہ کے دوسواٹھاون ویں عرس کی تقریبات کا آغاز ہونے والا ہے، ملک بھر سے عقیدت مند شرکت کیلئے جوق در جوق قصور کا رخ کرتے ہیں۔
حضرت بابا بلھے شاہ پنجاب کے علاقے بہاولپور میں حضرت شاہ محمد درویش گیلانی کے گھر سولہ سو اسی میں پیدا ہوئے،انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی۔کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد قصور کے قریب پانڈو میں منتقل ہو گئے۔ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ قرآن ناظرہ کے علاوہ گلستان بوستان بھی پڑھی اور منطق ، نحو، معانی، کنز قدوری ،شرح وقایہ ، سبقاء اور بحراطبواة بھی پڑھا۔ شطاریہ خیالات سے بھی مستفید ہوئے۔ مرشد کی حیثیت سے شاہ عنایت کے ساتھ آپ کا جنون آمیز رشتہ آپ کی مابعد الطبیعات سے پیدا ہوا تھا۔ وہ آپ کے وحدت الو جودی تھے، اس لئے ہر شے کو مظہر خدا جانتے تھے۔ مرشد کے لئے انسان کامل کا درجہ رکھتے تھے۔
مصلحت اندیشی اور مطابقت پذیری کبھی بھی ان کی ذات کا حصہ نہ بن سکی۔ ظاہر پسندی پر تنقید و طنز ہمہ وقت آپ کی شاعری کا پسندیدہ جزو رہی۔ آپ کی شاعری میں شرع اور عشق ہمیشہ متصادم نظر آتے ہیں اور آپ کی ہمدردیاں ہمیشہ عشق کے ساتھ ہوتی ہیں۔ آپ کے کلا م میں عشق ایک ایسی زبردست قوت بن کر سامنے آتا ہے جس کے آگے شرع بند نہیں باندھ سکتی۔بہت بڑے صوفی بزرگ شاعر حضرت بابا بلھے شاہ کا شہر قصور، بابا جی کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اسی شہر کی مٹی میں بابا بلھے شاہ یہ کہتے ہوئے اپنی قبر میں اترے کہ ”بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور” یعنی بلھے شاہ میں نے مرنا نہیں ہے، قبر میں کوئی اور پڑا ہوا ہے۔ ایک اور جگہ بابا جی فرماتے ہیں ”بلھے شاہ او سدا ای جیوندے، جینا کیتیاں نیک کمائیاں نیں” یعنی بلھے شاہ وہ لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جنھوں نے زندگی میں نیکیاں کمائی ہوں۔ اور بعد میں حضرت شاہ عنایت قادری کی خدمت میں حاضر ہوکر روحاینت کی دولت سے مالا مال ہوئے،بابا بلھے شاہ نے اپنے صوفیانہ کلام سے لاکھوں انسانوں کو ہدایت بخشی،،اندرون و بیرون ملک سے لاکھوں زائرین عرس میں شرکت کر تے ہیں۔عرس کی تقریبات تین روز تک جاری رہتی ہیں اور عقیدت مند مزار پر چادریں چڑھا کر ڈھول کی تھاپ پر خوب رقص کرتے ہیںایک بزرگ شیخ عنایت اللہ قصوری، محمد علی رضا شطاری کے مرید تھے۔
صوفیانہ مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے اور قادریہ سلسلے سے بھی بیعت تھے اس لئے آپ کی ذات میں یہ دونوں سلسلے مل کر ایک نئی ترکیب کا موجب بنے۔ حضرت بابا بلھے شاہ انہی شاہ عنایت کے مرید تھے۔ حضرت بابابلھے شاہ کا اصل نام عبد اللہ شاہ تھا۔ ہمارے والد محترم صوفی عنایت اللہ اپنی کتاب ”ارمغان صوفی” میں حضرت سید بلھے شاہ قادری ستاری رحمت اللہ علیہ کے عنوان سے لکھتے ہیں ”آپ حضرت شاہ عنایت ولی قادری رحمت اللہ علیہ کے مرید تھے۔ حضرت سید بلھے شاہ کو اپنے سید ہونے کا کوئی غرور نہیں تھا۔ آپ نہایت شریف النفس تھے، آپ انسانیت کے قائل تھے اور تمام مخلوق خدا کو یکساں اور برابر سمجھتے تھے۔ آپ کی تصانیف کا مجموعہ جو ”قانون عشق” کے نام سے مشہور ہے، پنجابی زبان جس میں مٹھاس بھری ہوئی ہے، لیکن بعض جگہ سچی بات مغرور لوگوں کو کڑوی بھی لگتی ہے۔ آپ کا کلام دریائے رموز، خزینہ توحید ربانی ہے۔ آپ کا کلام عاشقوں کے دل کا سرور، عارفوں اور صوفیائے کرام کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک اور نور ہے۔
آپ نے اپنے کلام میں انسانی اقدار کا سبق دیا ہے۔ آپ کا نظریہ یہ تھا کہ جس کے اعمال اچھے وہی مقبول ہے۔ حضرت بلھے شاہ رحمت اللہ علیہ نے اپنے کلام بلند مقام میں مسئلہ توحید بیان فرما کر مردہ دلوں کو زندہ کردیا ہے۔ آپ کے فیض سے پاکستان ہندوستان مالا مال ہے۔ آپ کا مزار فیض آثار قصور شہر میں ہر خاص و عام کے لیے زیارت گاہ موجود ہے۔”آپ کو جن سے انسیت تھی، آپ جن کے مرید تھے، وہ بزرگ حضرت شاہ عنایت ولی آرائیں ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ جب کہ حضرت بابا بلھے شاہ رحمت اللہ علیہ سید زادے تھے۔ لیکن پیری مریدی کے اس تعلق نے دنیا کو سبق دیا ہے کہ اصل حقیقت اچھے اعمال ہیں۔حضرت بابا بلھے شاہ کا کچھ کلام پیش خدمت ہے۔
پڑھی نماز تے نیاز نہ سِکھیا تیریاں کِس کَم پڑھیاں نمازاں علم پڑھیا تے عمل نہ کیتا تیریاں کِس کَم کیتیاں واگاں نہ کَہر ڈِٹَھا نہ کَہر والا ڈِٹَھا
تیریاں کِس کَم دِتیاں نیازاں بْلھے شاہ پتہ تَد لگ سی جدوں چِڑی پَھسی ہتھ بازاں کھا آرام تے پڑھ شکرانہ کر توبہ ترک ثوابوں چھڈ مسیت تے پکڑ کنارہ تیری چْھٹے جان عذابوں نہ کہو کلمہ جہیڑا کہندا مْنکر وے تو ہو روں اِک ثوابوں بْلھے شاہ چل اْتھے وسیے جِتھے منع نہ کرنڑ شرابوں۔ سِر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی لینا کی سِر ٹوپی تَرھ کے؟ تسبیح پھِری پر دِل نہ پھِریا لینا کی تسبیح ہتھ پَھڑ کے چلِے کیتے پر رب نہ ملیا لینا کی چِلیاں وِچ وَڑھ کے
ْبلھے شاہ جاگ بِنا دْدھ نہیں جمندا پانویں لال ہووے کڑھ کڑھ کے۔ پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا کدے اپنڑے آپ نوں پڑھیا نہیں
جا جا وَڑدا مسجداں مندراں اندر کدی اپنڑے اندر توں وَڑیا ای نہیں۔ ایویں روز شیطان نال لڑدا ایں کدی نفس اپنڑے نال توں لڑیا ای نہیں
بْلھے شاہ اسمانی اْڈدیاں پھَڑدا ایں جہڑا کہر بیٹھا اونوں پھڑیا ای نہیں
اپنی شاعری میں آپ مذہبی ضابطوں پر ہی تنقید نہیں کرتے بلکہ ترکِ دنیا کی مذمت بھی کرتے ہیں اور محض علم کے جمع کرنے کو وبالِ جان قرار دیتے ہیں۔ علم کی مخالفت اصل میں” علم بغیر عمل” کی مخالفت ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ بلھے شاہ کی شاعری عالمگیری عقیدہ پرستی کے خلاف رد عمل ہے۔ آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ لاقانونیت، خانہ جنگی، انتشار اور افغان طالع آزماؤں کی وحشیانہ مہموں میں بسر ہوا تھا، اس لئے اس کا گہرا اثر آپ کے افکار پر بھی پڑا۔ آپ کی شاعری میں صلح کل، انسان دوستی، اور عالم گیر محبت کا جو درس ملتا ہے ،وہ اسی معروضی صورت حال کے خلاف رد عمل ہے۔بلھے شاہ کا انتقال 1757ء میں قصور میں ہوا اور یہیں دفن ہوئے۔ آپ کے مزار پر آج تک عقیدت مند ہر سال آپ کی صوفیانہ شاعری کی عظمت کے گن گا کر آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
تحریر : سجاد علی شاکر، لاہور
sajjadalishakir@gmail.com
03226390480