تحریر: محمد اعظم صابری
سرزمین پاکستان اولیاء کا فیضان ہے اور بلاشبہ اللہ کی ان برگزیدہ ہستیوں کی ہی بدولت وطن ِ عزیز ”پاکستان”کہلایا۔کہیں حضرت داتا گنج بخش اس خطے کو منور کرتے نظر آتے ہیںتو کہیں حضرت بہاؤ الدین زکریا اور حضرت شاہ رکن عالم شہر ملتان میں بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم پر چلاتے نظر آتے ہیں تو کہیں سندھ میں حضرت لال شہباز قلندر علم و عرفان کے موتی بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔انہی اولیائے کرام میں اگر زہد الانبیاء کا لقب پانے والے صوفیاء کے نہایت درخشندہ ستارے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کا ذکر نہ کیا جائے تو تشنگی رہ جائے گی۔آج ہم انہی کا عرس پاک پتن میں منا رہے ہیں۔بلاشبہ آپ ہی صاحب کشف و کرامت ولی کامل ہیں جنہوں نے ہندوؤں کے گڑھ اجودھن کو اپنی اعلیٰ و ارفع خصوصیات کی بدولت پاک پتن بنا دیا۔
بابا صاحب نے دین اسلام کی تبلیغ کو اپنے پیشرو اولیائے عظام ہی کی طرح اپنی زندگی کا واحد نصب العین سمجھ کر کیا۔اس کے علاوہ آپ کی کوئی منشاء نہ تھی۔تمام زندگی آپ نے عملی طور پر اور زبانی و تحریری طور پر صرف شریعت اور وحد انیت کی ہی تعلیم لوگوں کو عطا فرمائی۔جیسا کہ فقراء کاملین کے ارشادات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اولیائے کرام کو تین باتوں سے پہچانو۔
٭ان کا بھروسہ مکمل طور پر خالق کائنات اور معبود حقیقی پر ہو اور اسی پر توکل ہو۔
٭ان کی بے نیازی مخلوق کے ساتھ مکمل طور پر ہو۔
٭ان کی ہر سانس کی آمدورفت میں اللہ تعالیٰ کی یاد شامل ہو۔
انہی خصوصیات کو ہم حضرت بابا فرید گنج شکر کی حیات مبارکہ کے مطالعہ میں دیکھتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ درج بالا تینوں خصوصیات صرف بابا فرید ہی کیلئے ہیں۔آپ عاشق جمال حق،صاحب کشف و کرامت،سرور ارباب توحید اور توکل الی اللہ تھے۔آپ کا شمار فقرائے کاملین میں کیا جاتا ہے۔اپنے دور کے آپ قطب الاقطاب امیر تھے جبکہ آپ کو شیخ کبیر فرید گنج شکر بھی کہا جاتا تھا اور یہ کہنے والے جاہل اور عام عقیدت مند نہیں بلکہ اولیائے کرام،علمائے کرام اور فضلا تھے۔
راقم پر خدائے بزرگ و برتر کی خصوصی نظر عنایت رہی کہ خوش قسمتی سے چشتیہ صابریہ سے روحانی نسبت و تعلق ہونے کے سبب اکثر و بیشتر حضرت بابا فرید کے مزار اقدس پر حاضری رہتی۔گویا بابا فرید سے سلسلہ چشتیہ ہی کی بدولت گہری محبت و عقیدت نے حیات زیست کا کٹھن سفر آسان بنا دیا۔یوں صحن ِ فرید میں کھیلتے کودتے نہ جانے بچپن کب گزرا اور شعور جب پختہ ہوا تو بے اختیار بابا صاحب کے مزار پہ لکھے اُس بے مثال شعر پر نگاہ پڑی تو فکر و شعور کو نئی جہت مل گئی۔
اے آتش ِ فراقت دلہا کباب کردہ
سیلاب ِ اشتیاقت جانہا خراب کردہ
(تیرے فراق کی آگ نے دل جلا دیے ہیں اور تیری ملاقات کے شوق نے جانیں تباہ کر دی ہیں)
بلاشبہ بابا صاحب کا یہ پسندیدہ شعر دراصل ہمیں اولیائے کرام کی مکمل پہچان دے رہا ہے کہ ان اولیائے کرام کا توکل اور بھروسہ مکمل طور پر خالق کائنات پر ہوتا ہے اور ان کی ہر سانس میں اللہ تعالیٰ کی یاد شامل ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے عشق میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ایسے ہی موقع پر بابا صاحب فرماتے ہیں۔
اٹھ فریدا ستیا،جھاڑو دے مسیت
تو سُتا رب جاگدا ،تیری ڈاڈھے نال پریت
غور طلب امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق سے بہت محبت ہے اور جو رب کی پریت میں ڈوب گیا،وہ رب کی مخلوق سے بھی پیار کرنے لگتا ہے۔جس کی وجہ سے مخلوق کائنات ان ہستیوں سے فیض یاب ہوتی ہے اور پھر یہ ولی کاملین مخلوق کے ساتھ رحمدلی،پیار و محبت ، ایثار کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دل نہ چاہتے ہوئے بھی ان ہستیوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج مسلم و غیر مسلم ہر فرقہ و جماعت سے بالا تر ہو کر فرید فرید پکار رہا ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چستی اجمیری حضرت بابا فرید کے دادا مرشد ہیں اور حضرت بابا فرید نے اپنے مرشد کامل حضرت خواجہ بختیار کاکی سے تو فیض حاصل کیا ہی ہے،حضرت خواجہ معین الدین چستی نے بھی علم و معرفت کے وہ اسرار و رموز سکھا دیے کہ بابا صاحب عالم روحانیت کے شہباز کہلائے۔آپ کے بارے میں ہی حضرت خواجہ معین الدین چستی یوں فرماتے ہیں: ”فرید شمع است خانوادہ ٔ درویشاں روشن خواہد کرد” ترجمہ: فرید ایک ایسی شمع ہے جس سے درویشوں کا سارا خاندان روشن ہو گا۔
اور بلاشبہ شمع ٔ فرید سے آج مسلم تو کیا غیر مسلم بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔راقم کو 2006 ء میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے عرس پاک کے سلسلے میں اجمیر شریف( بھارت) جانے کا شرف حاصل ہوا۔ دربار غریب نواز بھی کیا خوب ہے جہاں مسلم و غیر مسلم دیوانہ وار چلا آ رہا ہے۔بہرحال وہاں دوران عرس ایک سکھ سے ملاقات ہوئی ۔انہوں نے پوچھا ،کیا آپ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں؟میں نے جواب میں ہاں کہا تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ بابا فرید کے مزار اقدس پر حاضری دیتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ اکثر و بیشتر حاضری رہتی ہے۔اس پر وہ یوں گویا ہوئے کہ جب آپ پاکستان واپس جائیں تو میرا ناچیز سلام ضرور پیش کیجئے۔یہ اس غیر مسلم کا بابا صاحب سے اظہارِ محبت و عقیدت تھا۔
غور طلب امر یہ ہے کہ رب ِکائنات پر مکمل توکل اور اپنی خواہشات کو انا کے خنجر سے جو لوگ ذبح کرتے ہیں وہی درحقیقت معرفت الٰہی پا لیتے ہیں۔
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دگر است
(جو لوگ (رب کی) تسلیم ورضا کے خنجر سے قتل ہو جاتے ہیں،انھیں ہر زمانے میں غیب سے زندگی عطا کی جاتی ہے)۔
واقعی اولیائے کرام جو صاحب مزار ہیں، اگرچہ اس ظاہری دنیا سے تشریف لے گئے لیکن ہر زمانے میں انکا نام لیا جاتا رہے گا…کیونکہ انھوں نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنے وجود کی نفی کی۔جس طرح آج حضرت بابا فرید کا چہار سو نام لیا جارہا ہے۔ آج اس پر فطن دورمیں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ایثار، رحمدلی، صبرو برداشت،حسن اخلاق اور توکل الی اللہ جیسی خصوصیات جو اِن اولیائے کرام کا خاصہ تھیں،ناپید ہوتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ہم دہشت گردی اور تباہی کا شکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان صوفیائے کرام کی تعلیمات پر عمل سے ہی دہشت گردی سمیت متعدد سماجی و معاشرتی برائیوں کاخاتمہ ہو سکتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں حضرت بابا فرید کے فرمودات عالیہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراس عظیم صوفی بزرگ کے وسیلہ سے ہماری دعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔آمین
تحریر: محمد اعظم صابری