لاہور میں آمد کے بعد آپ نے سب سے پہلے ایک مسجد کی تعمیر کروائی اور اس پر اٹھنے والے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے
جنوبی ایشیاء میں اسلامی تصوف کی روایت کا نقطہ آغاز عظیم صوفی شیخ علی بن عثمان الحجویری کو قرار دیا جا سکتا ہے جو زمانے بھر میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے نام سے معروف و مقبول ہیں۔ آپؒ نے کشف المحجوب میں مسلمانوں کے بارہ گروہوں کا ذکر کیا ہے جن میں دس مقبول اور دو مردود قرار دیئے ہیں مگر آپ نے اپنی طرف سے کسی سلسلے کا آغاز نہیں کیا اور اس معاملے میں نہایت اعتدال کا راستہ اپنایا۔ آپ کے نزدیک اسلامی تصوف کا آغاز حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ہوتا ہے تاہم آپ سلسلہ نسبت کے اعتبار سے حسنی و حسینی مشہور ہیں ۔ آپ کا اصل نام علی تھا ، والد گرامی کا نام عثمان جبکہ دادا کا نام علی تھا۔
مولانا سید محمد متین ہاشمی نے ’’سید ہجویر‘‘ میں حکیم سید امین الدین احمد کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ:’’شاہان غزنیہ کے زمانے میں حضرت زید کے خاندان کے ایک بزرگ جن کا نام سید عثمان بن علی جلابی تھا، غزنی تشریف لائے اور وہاں سکونت اختیار کی۔‘‘ (مقالات دینی وعلمی۔ صفحہ 222 ) اپنی جائے پیدائش کے حوالے سے حضرت علی ہجویریؒ اپنی کتاب ’’کشف الاسرار‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ میری پیدائش کا مقام ہجویر ہے۔ خدا تعالیٰ اسے آفتوں، حادثوں اور ظالم بادشاہوں سے بچائے۔‘‘ نفحات الانس میں مولانا جامی نے تحریر کیا ہے کہ آپ ؒکی کنیت ابوالحسن تھی اور نام علی بن عثمان بن علی الجلابی غزنوی تھا۔ آپؒ سید حسنی ہیں یعنی حضرت امام حسن کی اولاد سے ہیں نوواسطوں سے آپؒ کا سلسلہ نسبت حضرت رسول پاک حضرت محمد ﷺسے جا ملتا ہے۔
داراشکوہ ’’سفینتہ الاولیاء‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’ شہر غزنی میں جلاب اور ہجویر دو محلے تھے حضرت کی والدہ ماجدہ ہجویر کی رہنے والی تھیں اور آپؒ کی پیدائش بھی اسی محلہ کی ہے آپؒ کے والد ماجد محلہ جلاب کے سکونتی تھے لیکن بعد میں آپ ؒنے ہجویر ہی میں سکونت اختیار کی، اسی وجہ سے آپ ہجویریؒ اور جلابی مشہور ہوئے۔‘‘ داراشکوہ نے مزید لکھا ہے کہ آپ کی والدہ کی قبر غزنیں میں پیر علی ہجویریؒ کے ماموں تاج الاولیاء کے مزارسے متصل واقع ہے آپ کا تمام خاندان زہد و تقویٰ کے لیے مشہور تھا۔ڈاکٹر محمد شفیع نے لکھا ہے : ’’زبیری صاحب کمشنر بہاولپور نے 26 اکتوبر 1959 ء کو مجھے بتایا کہ یہ قبریں اب بھی موجود ہیں وہ غزنیں گئے تھے اور انہوں نے ان قبروں کو موجود پایا۔‘‘ آپؒ سید الطائف جنید بغدادی کے پیرو ہیں آپ کے مرشد خواجہ ابوالفضل ختلی غزنوی کا تعلق سلسلہ جنیدیہ سے تھا۔
یہ عجیب بات ہے کہ عظیم صوفی حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے سال پیدائش کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی معلوم نہیں۔ محمد دین فوق آپ کی سوانح حیات تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’لاہور میں ان کا قیام 34 سال تک رہا۔ اس کے ساتھ اگر تیس سال ان کی غزنوی زندگی کے شامل کر لیے جائیں (جو ممکن ہے زیادہ ہوں) تو ان کی کل عمر چونسٹھ سال سمجھنی چاہیے اس حساب سے ان کی پیدائش کا فخر 400 ھ یا 401 ھ کو حاصل ہونا چاہیے‘‘۔مختلف کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے محمد دین فوق لکھتے ہیں: ’’کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سنہ وفات 465 ھ یا آپ ؒکی لاہور آمد 431 ھ میں ہوئی؟‘‘ڈاکٹر مولوی محمد شفیع آپ کی ولادت کے مسئلے کو حل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’اندازے سے کہا جاتا ہے کہ ان کی ولادت پانچویں صدی ہجری کے شروع میں ہوئی ہو گی۔
‘‘ڈاکٹر نکلسن نے بھی خاصی تحقیق کے بعد سنہ پیدائش کے بارے میں اندازہ ہی لگایا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ان کی پیدائش دسویں صدی کے آخری عشرے یا گیارہویں صدی کے ابتدائی عشرے میں متعین کی جا سکتی ہے جب محمود غزنوی کی وفات 421 ھ میں ہوئی تو حضرت ہجویریؒ عنفوان شباب کے دور میں رہے ہوں گے۔‘‘ مولانا سید محمد متین ہاشمی تمام تر تحقیق و مطالعہ کے بعد لکھتے ہیں۔ ’’آپ کا زمانہ ولادت 381 ھ تا 401 ھ کے درمیان میں متعین کیا جا سکتا ہے۔‘‘ حضرت کی پیدائش کے وقت لاہور میں سلطان محمود کی حکومت تھی۔ اس وقت غزنی میں علماء و فقہا شیوخ اور شعراء کا بہت چرچا تھا اور سلطان محمود غزنی خود بھی اہل علم و تصوف اور گوشہ نشینوں کا انتہائی قدردان تھا۔آپ ؒکی پیدائش کا زمانہ وہ ہے جب امیرسبکتگین کی وفات (387 ھ 999 ئ)کو تیرہ برس گزر چکے تھے لاہور شہر اس کے حملوں سے پامال ہوچکا تھا اور ہندوستان کا راستہ سلطان محمود غزنوی کی یلغار کے لیے بالکل کشادہ تھا اور کوئی مزاحمت نہ تھی ۔ کشف الاسرار میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ خود لکھتے ہیں: ’’جب میں ہندوستان پہنچا تو نواح لاہور کو جنت نظیر پایا تو یہیں بیٹھ گیا اور لڑکوں کو پڑھانا شروع کیا لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ اس طرح سے حکومت کی بودماغ میں پیدا ہو رہی ہے تو میں نے لوگوں کو درس دینا چھوڑ دیا۔
‘‘ قلمی پنجابی کتاب کے حوالے سے محمد دین فوق نے لکھا ہے کہ: ’’جہاں حوض ہے وہاں حضرت نے قیام کیا۔ اس جگہ ایک بلند ٹیلہ تھا اور اس پر کریر کا ایک درخت بھی تھا۔ اس درخت کی لکڑی اب تک دربار میں موجود ہے۔‘‘ (صفحہ 47 مطبوعہ 1914 ئ)جب آپؒ کو آپؒ کے پیر روشن ضمیر حضرت شیخ ابوالفضل بن حسن ختلیؒ نے لاہور جانے کا فرمایا تو آپ نے ان کو جواب دیا کہ وہاں میرے پیر بھائی حضرت حسین زنجانیؒ موجود ہیں میرے جانے کی کیا ضرورت ہے؟مرشد نے فرمایا ’’ان باتوں میں بحث مباحثہ کی ضرورت نہیں ، جائو اور بلاتوقف جائو۔‘‘ چنانچہ جب آپ لاہور پہنچے اور بیرون شہر رات کو قیام کرکے صبح کو شہر کی جانب روانہ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جنازہ آ رہا ہے اور لوگوں کا ایک جم غفیر اس کے پیچھے ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ جنازہ حضرت حسین زنجانیؒ کا ہے تو حضرت خود جنازہ میں شامل ہو گئے اور تکفین و تدفین فرمائی ۔
جب حضرت علی ہجویریؒ لاہور تشریف لائے تو آپ کے ہمراہ آپ کے پیر بھائی اور دوست شیخ احمد سرخسیؒ اور شیخ ابو سعید ہجویریؒ بھی تھے۔لاہور تشریف لانے سے قبل کشف المحجوب کے مطابق حضرت علی ہجویریؒ خراسان، ماورالنہر، مرو اور آذربائیجان تک کی سیاحت کر چکے تھے۔ آپ کی اولین تصنیف بارہ سال کی عمر میں ہوئی آپ نے قلمی نسخہ ’’بقاء و فنائ‘‘ تحریر کیا مگر چونکہ حضرت علی ہجویریؒ نے خود اس کتاب کا نام کہیں نہیں بتایا لہٰذا یہ قابل اعتبار کم ہی ٹھہرتا ہے۔ کشف المحجوب میں حضرت علی ہجویریؒ کی درج ذیل دیگر تصانیف کا پتہ ملتا ہے۔-1 دیوان جو صوفیانہ و عارفانہ کلام پر مشتمل تھا۔-2 منہاج الدین۔-3 البیان لاہل العیان۔-4 اسرارلخرق و المونیات۔-5 الرعایت بحقوق اللہ ۔سید علی ہجویریؒ کشف المحجوب کی تصنیف کا سبب بتاتے ہیں کہ ان کے ایک رفیق ابوسعید ہجویریؒ نے عرض کی کہ :’’مجھ سے طریق تصوف کی حقیقت اور مقامات صوفیہ کی کیفیت اور ان کے مذاہب اور مقالات کا حال بیان فرمائیے اور مجھ پر ان کے رموز و اشارات اور خدائے عز و جل کی محبت کی نوعیت اور دلوں میں اس کے ظاہر ہونے کی کیفیت اور اس کی ماہیت کے ادراک سے قبل کے حجاب اور اس کی حقیقت سے نفس کی نفرت اور اس کی برگزیدگی و پاکیزگی سے روح کی تسکین اور دوسر ے متعلقہ تصور کا اظہار فرمائیے ۔
‘‘حضرت نے ساری کتاب اسی سوال کے جواب میں تحریر فرمائی اور اس میں تصوف کی اصل تاریخ، مختلف فرقوں اور گروہوں کے عقائد، اکابر صوفیہ کے حالات ، سلوک و طریقت کے مصطلحات ، تصوف کے عملی مسائل ا ور راہ سلوک میں حجابات کی تشریح کی ہے۔کشف المحجوب کے مطالعہ سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ اس کا مصنف علوم ظاہری و باطنی میں یدطولیٰ رکھتا ہے داراشکوہ کے بقول ۔ ’’اس کتاب کی شہرت و عظمت میں کسی کو کلام نہیں یہ ایک مرشد کامل کی حیثیت رکھتی ہے اور فارسی میں تصوف کے موضوع پر اس پائے کی کوئی کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔‘‘(سفینتہ الاولیائ) ۔تحقیقات چشتی میں درج ہے: ’’رائے راجو حاکم پنجاب کا نائب تھا وہ حضرت کا مرید ہو کر مسلمان ہو گیا‘‘ چونکہ یہ پہلا ہندو بلکہ پہلا ہندوستانی جو حضرت داتا گنج بخشؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہوا تھا اس لیے حضرت نے اپنی دلی خواہش کے بطور یادگار اس کا نام شیخ ہندی رکھا۔ موجودہ مجاور اور خدام جن کا تعلق محکمہ اوقاف سے قبل آپ کے روضہ مبارک کی آمدنی سے تھا، اسی شیخ ہندیؒ کی اولاد سے ہیں۔
حضرت داتا گنج بخشؒ نے لاہورمیں تشریف لا کر سب سے پہلے اپنی گرہ سے ایک مسجد تعمیر کرائی۔ شہزادہ داراشکوہ سفینتہ الاولیاء میں لکھتا ہے: ’’جب حضرت نے یہ مسجد بنائی تو اور مسجدوں کی نسبت اس کے قبلہ کا رخ ذرا سا جنوبی سمت میں تھا، علماء لاہور نے اس پر اعتراض کیا۔ حضرت اعتراض سن کر خاموش ہو رہے۔ جب تعمیر مسجد سے فراغت پائی تو آپ نے کل علماء و فضلاء کو بلایا اور خود امام بن کر نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد تمام حضرات سے فرمایا کہ تم لوگ اس مسجد کے قبلہ پر اعتراض کرتے تھے ا ب دیکھو قبلہ کس طرف ہے؟ جب انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو یکبارگی قبلہ بالمشافہ بچشم ظاہر نظر آیا۔ حضرت نے فرمایا بتائو قبلہ کدھر ہے؟ قبلہ کو سیدھے رخ دیکھ کر سب معترضین نادم ہوئے اور آپ ؒسے معذرت چاہی ۔ یہ پہلی کرامت تھی جو لاہور میں آپ ؒسے ظاہر ہوئی اور جس نے سارے شہر میں آپ ؒکو مشہور کر دیا اور رفتہ رفتہ تمام ہندوستان میں حضرت ’’قطب الاقطاب‘‘ مشہور ہو گئے۔
‘‘ قدیم تذکرہ نگار حضرات میں شہزادہ داراشکوہ (سفینتہ الاولیائ) مولانا جامی (نفحات الانس) اور مولانا سید عبدالحئی (نزہستہ الخواطر) حضرت علی ہجویریؒ کے سلسلہ ازدواج کے متعلق خاموش ہیں تاہم اس سلسلہ میں مستند حوالہ کشف المحجوب سے بھی مل سکتا ہے۔ حضرت علی ہجویریؒ نے اپنی پہلی شادی کا کہیں ذکر نہیں کیا کہ کب ہوئی، کہاں ہوئی؟ جہاں دوسری شادی کا ذکر کیا ہے، لکھا ہے: ’’گیارہ سال سے خدا تعالیٰ نے نکاح کی آفت سے بچایا ہوا تھا قسمت نے آخر اس میں پھنسا دیا اور میں عیال کی صحبت میں دل و جان سے بن دیکھے ہی گرفتار ہو گیا۔‘‘ داراشکوہ، سفینتہ الاولیاء میں لکھتے ہیں۔’’آپ ؒ کی وفات 456 ھ یا 454 ھ کو ہوئی قبر مبارک لاہور کے مغربی قلعہ میں واقع ہے۔ ‘‘
مزار حضرت علی ہجویریؒ کی تعمیر کے بارے میں تحقیقات چشتی کا مصنف لکھتا ہے کہ آپ کا مزار سلطان محمود غزنوی کے برادر زادہ ظہیر الدولہ سلطان ابراہیم بن سلطان مسعود غزنوی نے تعمیر کرایا۔ چبوترہ اور نواح مزار اسی کا تعمیر کردہ ہے اور اب 1278 ھ میں مسمی نور محمد سادھو نے ایک گنبد بالائے پنجرہ چوبی تعمیر کرایا ہے اور پنجرہ سے لے کر تا عمارت گنبد ڈاکٹر محمد حسین متعینہ میڈیکل کالج نے آئینے چاروں طرف لگوائے ہیں۔آپ ؒکے احاطہ مزار کے اندر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا حجرہ اعتکاف اور شیخ ہندیؒ کی قبر نمایاں ہے جہاں تک آپ کے لقب گنج بخش کا تعلق ہے تو کشف الاسرار میں خود حضرت علی ہجویریؒ تحریر کرتے ہیں : ’’اے علی! تجھے خلقت گنج بخش کہتی ہے (عجیب لطف ہے کہ) تو ایک دانہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتا۔ اس بات کا کہ (مخلوق تجھے گنج بخش کہتی ہے) کبھی خیال تک بھی نہ لا ورنہ محض دعویٰ اور غرور ہوگا۔ گنج بخش یعنی خزانے بخشنے پر قادر تو صرف اسی کی ایک ذات ہے جو بیچون و بے چگون اور بے شک و شبہ مالک الملک ہے۔ اس کے ساتھ شرک نہ کر ورنہ زندگی تباہ ہو جائے گی بے شک وہی اکیلا خدا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ ‘‘
درج بالا اقتباس سے نتیجہ نکلتا ہے۔حضرت کی زندگی میں لوگوں نے انہیں گنج بخش کہنا شروع کر دیا تھا البتہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے شعر پڑھنے سے اس لفظ کی زیادہ شہرت ہوئی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے حضرت کی پائنتی کی طرف دست بستہ کھڑے ہو کر یہ شعر پڑھا۔ گنج بخش ہر دو عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما حضرت علامہ اقبالؒ نے بھی سید ہجویر کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔ ’’سید ہجویر مخدوم امم مرقد او پیر سنجر را حرم‘‘ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ جب لاہور تشریف لائے تو شہر قدیم سے باہر راوی کے کنارے قیام فرمایا۔ پرانی کتابوں میں ذکر ملتاہے کہ حضرت داتا گنج بخشؒ نے لاہور میں قیام پذیر ہونے کے بعد سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی اور اس پر اٹھنے والے تمام اخراجات اپنی گرہ سے ادا کیے۔ اس سے قبل لاہور شہر کے گلی کوچوں میں اگر کوئی قدیمی مساجد تھیں تو وہ بادشاہوں نے تعمیر کرائی تھیں مگر یہ مسجد اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ لاہور شہر کی سرزمین پر کسی ولی اللہ نے مسجد کی تعمیر ذاتی اخراجات سے کی۔