حضرت داؤد علیہ السلام کو حکومت کیسے ملی اس کے بارے مفسرین نے لکھا ہے کہ جب طالوت علیہ رحمہ جو کہ بنی اسرائیل کے ایک نیک شخص تھے وہ جب بادشاہ بن گئے تو طالوت علیہ رحمہ نے بنی اسرائیل کو جہاد کے لئے تیار کیا اور ایک کافر بادشاہ ”جالوت” سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو لے کر میدان جنگ میں نکلے۔ جالوت بہت ہی قد آور اور نہایت ہی طاقتور بادشاہ تھا وہ اپنے سر پر لوہے کی جو ٹوپی پہنتا تھا اس کا وزن تین سو رطل تھا۔ جب حضرتِ طالُوت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بنی اسرائیل کے لشکر کولے کر ظالم بادشاہ جالوت سے مقابلے کے لئے بیتُ المقدَّس سے روانہ ہوئے تو ان کے لشکر کی اِس طرح آزمائش ہوئی: پارہ۲،البقرۃ:۲۴۹۔ ترجَمہ:(طالوت) بولا بے شک اللہ تمہیں ایک نَہَر سے آزمانے والا ہے،تو جو اس کاپانی پئے وہ میرا نہیں اورجو نہ پئے وہ میرا ہے مگروہ جو ایک چُلّو اپنے ہاتھ سے لے لے۔تفسیر خزائن میں ہے کہ سخت گرمی تھی،صِرف313 افراد نے صبر کیا اور صرف ایک چلّو پانی لیا۔الحمد للہ عزوجل وہ ایک چلُّو ان کے لئے اوراُن کے جانوروں کیلئے کافی ہو گیا اور جنہوں نے بے صبری کی اور خوب پانی پیا تھا ان کے ہونٹ سیاہ ہو گئے،پیاس خوب بڑھ گئی اور ہمّت ہار گئے۔جالوت کے عظیم لشکر سے 313 مسلمانوں کا مقابلہ تھا جو اطاعت گزار تھے ان کے حوصلے مضبوط تھے،ان کا نقشہ اِسی آیتِ کریمہ میں اس طرح پیش کیا گیا ہے:پارہ۲،البقرۃ:۲۴۹۔ترجمہ:(بے صبرے) بولے:ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں(کے مقابلے)کی،بولے وہ جنھیں اللہ سے ملنے کا یقین تھا(یعنی صبر کرنے والے کہنے لگے)کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ کے حکم سے اوراللہ صابروں کے ساتھ ہے۔جب دونوں فوجیں میدانِ جنگ میں لڑائی کے لئے صف آرائی کرچکیں تو حضرت طالوت نے اپنے لشکر میں یہ اعلان فرما دیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کریگا، میں اپنی شہزادی کا نکاح اس کے ساتھ کردوں گا۔ اور اپنی آدھی سلطنت بھی اس کو عطا کردوں گا۔ یہ فرمان شاہی سن کر حضرت داؤد علیہ السلام آگے بڑھے جو ابھی بہت ہی کمسن تھے اور بیماری سے چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ اور غربت و مفلسی کا یہ عالم تھا کہ بکریاں چرا کر اس کی اجرت سے گزر بسر کرتے تھے۔روایت ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام گھر سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے تھے تو راستہ میں ایک پتھر یہ بولا کہ اے حضرت داؤد! مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پتھرہوں۔ پھر دوسرے پتھر نے آپ کو پکارا کہ اے حضرت داؤد مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کا پتھر ہوں۔ پھر ایک تیسرے پتھر نے آپ کو پکار کر عرض کیا کہ اے حضرت داؤد علیہ السلام مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں جالوت کا قاتل ہوں۔ آپ علیہ السلام نے ان تینوں پتھروں کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت داؤد علیہ السلام اپنی گوپھن لے کر صفوں سے آگے بڑھے اور جب جالوت پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے ان تینوں پتھروں کو اپنی گوپھن میں رکھ کر اور بسم اللہ پڑھ کر گوپھن سے تینوں پتھروں کو جالوت کے اوپر پھینکا اور یہ تینوں پتھر جا کر جالوت کی ناک اور کھوپڑی پر لگے اور اس کے بھیجے کو پاش پاش کر کے سر کے پیچھے سے نکل کر تیس جالوتیوں کو لگے اور سب کے سب مقتول ہو کر گر پڑے۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے لا کر اپنے بادشاہ حضرت طالوت کے قدموں میں ڈال دیا اس پر حضرت طالوت اور بنی اسرائیل بے حد خوش ہوئے۔جالوت کے قتل ہوجانے سے اس کا لشکر بھاگ نکلاا ور حضرت طالوت کو فتح مبین ہو گئی اور اپنے اعلان کے مطابق حضرت طالوت نے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کردیا اوراپنی آدھی سلطنت کا ان کو سلطان بنا دیا۔ پھر پورے چالیس برس کے بعد جب حضرت طالوت بادشاہ کا انتقال ہو گیا تو حضرت داؤد علیہ السلام پوری سلطنت کے بادشاہ بن گئے اور جب حضرت شمویل علیہ السلام کی وفات ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو سلطنت کے ساتھ نبوت سے بھی سرفراز فرمادیا۔ آپ سے پہلے سلطنت اور نبوت دونوں اعزاز ایک ساتھ کسی کو بھی نہیں ملا تھا۔ آپ پہلے شخص ہیں کہ ان دونوں عہدوں پر فائز ہو کر ستر برس تک سلطنت اور نبوت دونوں منصبوں کے فرائض پورے کرتے رہے اور پھر آپ کے بعد آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے سلطنت اور نبوت دونوں مرتبوں سے سرفراز فرمایا۔ (تفسیر جمل علی الجلالین، ج۱،ص۳۰۸، پ۲،البقرۃ۲۵۱) اس واقعہ کا اجمالی بیان قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں اس طرح ہے کہ:۔ ترجمہ:۔اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا۔ (پ2، البقرۃ:251) حضرت داؤد علیہ السلام کا ذریعہ معاش:۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے باوجودیکہ ایک عظیم سلطنت کے بادشاہ تھے مگر ساری عمر وہ اپنے ہاتھ کی دستکاری کی کمائی سے اپنے خورد و نوش کا سامان کرتے رہے۔ اللہ
تعالیٰ نے آپ کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجایا کرتا تھا اور آپ اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے اور ان کو فروخت کر کے اس رقم کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔ (روح البیان، ج۱، ص۳۹۱، پ۲،البقرۃ:۲۵۱) حضرت طالوت کی سرگزشت کی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کی مقدس زندگی سے یہی سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنا فضل و کرم فرماتا ہے تو ایک لمحہ میں رائی پہاڑ اور ذرہ کو آفتاب بنا دیتا ہے۔ غور کرو کہ حضرت داؤد علیہ السلام ایک کمسن لڑکے تھے اور خود نہایت ہی مفلس اور ایک غریب باپ کے بیٹے تھے۔ مگر اچانک اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنے عظیم اور بڑے بڑے مراتب ودر جات کے اعزاز سے سرفراز فرما دیا کہ ان کے سر پر تاجِ شاہی رکھ کر اُنہیں بادشاہ بنا دیا۔ اور ایک بادشاہ کی شہزادی اُن کے نکاح میں آئی اور پھر نبوت کا مرتبہ بلند اُنہیں عطا فرما دیا کہ اس سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی بلند مرتبہ ہو سکتا ہی نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ کا جلوہ دیکھو کہ جالوت جیسے جابر اور طاقتور بادشاہ کا قاتل حضرت داؤد علیہ السلام کو بنادیا جو ایک کمسن لڑکے اور بیمار تھے اور وہ بھی ان کے تین پتھروں سے قتل ہوا۔ حالانکہ جالوت کے سامنے ان چھوٹے چھوٹے تین پتھروں کی کیا حقیقت تھی؟ جب کہ وہ تین سو رطل وزن کی فولادی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ایک چیونٹی کو ہاتھی پر غالب کردے اور اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ہاتھی ایک چیونٹی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ طالوت دبگری یعنی چمڑا پکانے کا پیشہ کرتے تھے یا بکریاں چراتے تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام بھی پہلے بکریاں چرایا کرتے تھے اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بنادیا اور نبوت کے شرف سے بھی سرفراز فرما دیا تو انہوں نے اپنا ذریعہ معاش زرہیں بنانے کے پیشے کو بنالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی پیشہ اختیار کرنا خواہ وہ دبگری ہو یا چرواہی ہو یا لوہاری ہو یا کپڑا بننا ہو، الغرض کوئی پیشہ ہرگز ہرگز نہ ذلیل ہے نہ ان پیشوں کے ذریعہ روزی حاصل کرنے والوں کے لئے کوئی ذلت ہے۔ جو لوگ بنکروں اور دوسرے پیشہ وروں کو محض ان کے پیشہ کی بناء پر ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں وہ انتہائی جہالت و گمراہی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں۔ رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی جائز پیشہ اختیار کرنا یہ انبیاء و مرسلین اور صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ لہٰذا ہرگز ہرگز پیشہ ور مسلمان کوحقیر ذلیل شمار نہیں کرنا چاہیے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پیشہ ور مسلمان ان لوگوں سے ہزاروں درجہ بہتر ہے جو سرکاری نوکریوں اور رشوتوں اور دھوکہ دہی کے ذریعہ رقمیں حاصل کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اپنے شریف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ شرعاً اس سے زیادہ ذلیل کون ہو گا جس کی کمائی حلال نہ ہو یا مشتبہ ہو۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)