بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو منتخب فرمایا اور انھیں زبور کا تحفہ عطا کیا۔ زبور، حمد و ثنائے کبریا سے معمور تھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام علیہ السلام کو ایک معجزہ یہ بھی عطا ہوا تھا کہ آپ مکمل زبور کی تلاوت اتنی مختصر مدت میں کر لیتے تھے کہ جتنی دیر میں گھوڑے پر زین کسی جاتی ہے۔ یوں آپ کا یہ معجزہ حرکتِ زبان سے تعلق رکھتا ہے۔حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا کیا تھا کہ جب آپ تلاوت فرماتے تو اس لحن کے باعث پرندے و جانور تک وجد میں آ جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ترتیل کا حکم عطا کیا تھا، جس کے باعث پہاڑ اور پرندے ان کی خوش الحان قرأت میں آواز سے آواز ملا کرپڑھنے پر مجبور ہو جاتے۔ آپ کی آواز میں وہ نغمگی، مٹھاس اور ایسا زیر و بم تھا کہ شجر و حجر سبھی کو متاثر کرتا تھا۔ ہوا میں اُڑتے ہوئے پرندے رُک جاتے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پہاڑ بھی صبح و شام ان کے ساتھ تسبیح کرنے پر مامور تھے۔ کائنات کا ہر ذرہ حمد و ثنا کرتا ہے بے شک ہم نہ سمجھ سکیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک رات صحابیِ رسول حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ تلاوت کلام پاک کر رہے تھے۔ رسول کریمﷺ دیر تک سنتے رہے پھر خوش ہو کر فرمایا کہ آج مجھے لحن داؤد علیہ السلام کا کچھ حصہ مل گیا ہے۔حضرت داؤد علیہ السلام کے حلیہ، شکل و صورت اور کردار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی شخصیت انتہائی مسحور کن تھی، حسین و متناسب خد و خال کی بنا پر، دیکھنے والوں کو بھلے لگتے پھر سرخ و سفید رنگت، نیلی آنکھیں متاثر کرتی تھیں۔