حضور پاک ﷺ اپنے چچا کی شہادت پر اس قدر روئے کہ کبھی پھر آپؐ کو اس قدر روتے نہیں دیکھا گیا آپؓ کی شہادت کا غم عہد نبوی ؐ سے ہی اہل مدینہ کی قدیم روایت اور عقیدت میں شامل ہے
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ، رضاعی بھائی ،وفادار دوست، امیرِطیبہ، کاشف الکرب ،اسدُاﷲ ِواسدُالرّسول ،سیدُالشہدا،سیدناابو عمارہ حمزہ رضی اﷲ عنہ اسلام کے عظیم سپاہی ، جلیل القدر سپہ سالار ، صفِ اوّل کے مجاہد اور غزوۂ بدر کے فاتح ہیں۔
- شعر و شاعری ، گھڑ سواری اور سیاحت سیدنا امیر حمزہ ؓ کے پسندیدہ مشاغل تھے ۔ قبائلِ عرب میں آپ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قریشِ مکہ کے بڑے بڑے رئیس سیدنا حمزہ بن عبد المطلب رضی اﷲ عنہ سے مراسم رکھنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔ شروع سے ہی حضور نبیِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بہت لگائو اور پیار تھا
- جب تک آپؓ حیات رہے سرکاردوعالم ؐکے نائب کا کردار ادا فرمایا ۔غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے ،بعثت کے چھٹے سال سے لیکر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لیکر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات حفاظت مصطفی کریمؐ ؐمیں بسر ہوئی اور آپؓ کو اس رفاقت پہ بڑا ناز تھا۔ صاحبان طریقت کے نزدیک سیدنا حضرت امیر حمزہؓ کا دربار رسالت مآب ؐمیں بہت ہی بلند مقام و مرتبہ ہے۔ دور نبویؐ میں بھی صحابہ کرامؓ نبی پاکؐ ؐکے بعد رہنمائی کیلئے آپؓ سے رجوع کیا کرتے تھے۔
- سیدناحضرت عبدالمطلب کی ساری اولاد دین حنیف پر تھی اور انہیں اس بات پر بڑا فخر تھا کہ سیدناحضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اور سرکاردوجہاں ؐکی ملت میں سے ہیں۔ حضرت امیر حمزہ ؓ بھی اپنے آبائواجداد کے دین پر تھے جن کے بارے میں خود خدا پاک نے اپنے لاریب کلام مقدس میں ارشاد فرمایا کہ’’ وہ سب سجدے کرنے والے تھے۔‘‘ آپؓ اعلان اسلام سے قبل بھی کبھی بت پرستی کے نزدیک نہ گئے۔ شراب ،جوا،اور دیگر امور سے آپؓ کوسوں دور تھے آپؓ کا شوق پہلوانی اور شکار تھا ۔
- آپ رضی اﷲ عنہ کو امام الملائکہ حضرت جبریل علیہ السلام کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہے ۔عمار بن ابی عمار سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ میں جبرائیل کو اُن کی اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں، فرمایا : تمہیں طاقت نہیں ہے کہ انہیں دیکھو ، انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں ، فرمایا اپنے مقام پر بیٹھ جائیں ، پھر جبرائیل کعبے میں اس لکڑی پر اترے جس پر مشرکین بیت اﷲ کا طواف کرتے وقت اپنے کپڑے رکھ دیتے تھے ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے فرمایا اپنی نظر اٹھائو اور دیکھو ،انہوں نے دیکھا تو جبرائیل کے دونوں قدم مثل زمرد کے سبز تھے ۔ وہ بیہوش ہوکر گر پڑے ۔
- نبیِ مکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آپ کی جرأت و بہادری کی تعریف فرمایا کرتے تھے ۔ آپ نے آخری سانس تک خود کو اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کردیا
- حضرت امیر حمزہ ؓ امام المجاہدین اور سید الشہداء کے بلند مقامات پر فائز ہیں۔ آپ ؓکی تلوار انتہائی منفرد ،دو دھاری اور انتہائی بھاری تھی اور اس تلوار کا وار رک نہ سکتا تھا۔ اگر سیدھی پڑتی تو ڈھال کوکاٹ دیتی کیونکہ اتنی بھاری تلوار کو روکنا ڈھال کا کام نہیں اور دودھاری ہونے کی وجہ سے اگر لوٹ آتی تو چلانے والے کو دو لخت کر دیتی تھی۔ آپؓ سے زیادہ زور آور کوئی نہ تھا جو ان کی تلوار واپس پلٹا سکتا اور نہ ہی ان کی تلوار کبھی واپس پلٹتی تھی۔ حقیقت میں آپؓ جیسا نہ کوئی طاقتور تھا اور نہ کوئی بہادر تیغ زن تھا، یہی وجہ ہے کہ آپؓ کی تلوار آپؓ کے بعد کوئی بھی نہ چلا سکا اور اکثر تو اسے اٹھا بھی نہیں سکتے تھے شمشیر زنی کی ہزاروں برس کی تاریخ میں کوئی بھی حضرت امیر حمزہ ؓ کا ثانی نہیں ملتا اور ملتا بھی کیسے کیوں کہ آپؓ اللہ اور اسکے رسول پاک ؐکے شیر تھے۔ عشق رسول کریم ؐآپؓ کی حیات کا مرکز و محور تھا ،آپ ؓنے اپنی تمام زندگی حضور پاکؐ کے قدموں میں وار دی اور ابدی حیات پائی ۔ جو محبت آقائے کائناتؐ کو حضرت سیدنا امیر حمزہؓ سے تھی ویسی کسی اور سے نہ تھی۔
- جب غزوہ احد ختم ہوا تو مدینہ کی عورتیں آئیں اور اپنے اپنے شہداء کا نوحہ کرنے لگیں ۔ آپ ؐنے فرمایا کہ ’’امیر حمزہ ؓ کا نوحہ کون کرے گا؟ ‘‘یہ سن کر انصار نے اپنی عورتوں کو اپنے شہداء کا نوحہ کرنے سے روک دیا اور حضرت امیر حمزہ ؓ کا نوحہ کرنے کا حکم دیا ۔سب نے مل کر سید الشہداء کا نوحہ کیا ۔اس کے بعد مدینہ میں یہ رسم پڑ گئی کہ جب بھی کوئی فوت ہوتا تو اس کی میت پر اظہار غم کرنے سے پہلے سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ کا نوحہ کیا جاتا تھا ۔ صدیوں تک مدینہ منورہ میں یہ رسم رہی کہ مسلمان سرکاردوعالم ؐکے غم کو اپنے غم پر ترجیح دینے لگے۔ اللہ کے رسول برحق ؐ کو حضرت حمزہ ؓ کے وصال کا غم تا دم وصال رہا۔ آپؐ ہر سال تاریخ مقرر فرما کر جبل احد پر جاتے ، صحابہؓ کو بھی ساتھ لے جاتے اور ہر سال دن مقرر کر کے حضرت امیر حمزہ ؓ سمیت سب شہداء احد کیلئے دعا فرمایا کرتے۔ یہ اس محبت کا مظہر ہے جو اللہ کے رسول کریم ؐ کو اپنے پیارے چچا سیدنا امیر حمزہ ؓ سے تھی اور بلاشبہ حضرت حمزہ ؓ سرکار دوعالم ؐ کی اس محبت کے اہل بھی تھے ،گویا حضرت حمزہؓ کی محبت ہرصاحب ایمان کیلئے لازم ہے ۔آپؓ کی شہادت کا غم عہد نبوی ؐ سے ہی اہل مدینہ کی قدیم روایت اور عقیدت میں شامل ہے۔ اہل مدینہ کی یہ بھی روایت ہے کہ وہ باقاعدگی سے سیدنا حضرت امیر حمزہؓ کی قبر انور پر جاتے، سلام پیش کرتے۔ آج بھی عشاق کرام کی ان کی قبر اقدس پر حاضری کیلئے ہر بدھ کافی تانتا بندھا رہتا ہے۔ قریش مکہ رسولؐ خدا کی عداوت میں پاگل ہورہے تھے۔ ایک دن سرکاردوعالم ؐ کوہ صفا یا اس کے دامن میں جلوہ افروز تھے کہ ابو جہل اس طرف آنکلا، اس نے آپؐ کو نازیبا الفاظ کہے آپؐ نے جب اسکی بے ہودہ گوئی کا جواب نہ دیا تو اس نے ایک پتھر اٹھا کر آپ ؐکو دے مارا آپؐ زخمی ہو گئے، خون مبارک بہنے لگا۔ آپؐ خاموشی سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے ۔ اس گستاخی کے بعدابوجہل صحن کعبہ میں آبیٹھا جہاں کچھ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ حضرت حمزہ ؓ کی عادت تھی کہ روزانہ تیر کمان لیکر جنگل کی طرف نکل جاتے اور شکار کرکے شام کو طواف کعبہ کرکے اپنے گھر چلے جاتے ۔ آپؓ حسب معمول جب شکار سے واپس آئے تو ابو جہل کی لونڈی ملی، اس نے ابو جہل کا سرکاردوعالم ؐکی شان اقدس میں بد زبانی کرنا اور پتھر مارنا اور سرکار ؐ کا خاموشی سے گھر آجانے کا سب حال آپؓ کو بیان کر دیا۔ حضرت امیر حمزہ ؓ کو جوش آیا، خانہ کعبہ گئے ،طواف سے فارغ ہو کر سیدھے اس مجمع کی طرف متوجہ ہوئے جہاں ابوجہل باتیں کر رہا تھا۔آپؓنے جاتے ہی اس زور سے کمان اس کے سر پر ماری کہ اس کر سرپھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ پھر کہا’’ میں بھی محمد ؐکے دین پر ہوں، وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو میرے سامنے بول‘‘ابو جہل کے ساتھیوں کو غصہ آیا ،وہ اس کی حمایت میں اٹھے مگر ابو جہل آپؓ کی بہادری سے واقف تھا ۔ اس نے اپنے حمایتیوں کو یہ کہہ کر روک دیا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہو گئی تھی۔ یہ بات ابو جہل نے ان کو سنانے کیلئے کہی تاکہ بات یہیں ختم ہو جائے۔ اس کے بعد حضرت حمزہ ؓآقا کریم ؐکے پاس آئے اور کہا ’’ بھتیجے تم یہ سن کر خوش ہو گے کہ میں نے ابو جہل سے تمہارا بدلہ لے لیا ہے‘‘ حضرت حمزہؓ کے بھرپور جواب نے مشرکین مکہ کواس قدر محتاط و مودب بنا دیا تھا کہ اب وہ سرکار ؐ کی شان میں گستاخیاں کرنے سے باز رہنے لگے۔
- غزوہ احد میں آپؓ سالار لشکر تھے اور پہلی ضرب میں آپؓ نے قریش کے مشہور جنگجو سردار عتبہ اور پھر اس کے بھائی شیبہ کو بھی واصل جہنم کیا۔ جنگ احد میں آپؓ اپنی شجاعت سے اہل مکہ کا مقابلہ کرتے رہے، ہندہ بنت عتبہ نے ایک حبشی غلام جو ماہر نشانہ باز تھا سے کہا اگر تم جنگ میں امیر حمزہ ؓ کو شہید کر دو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا۔ وہ حضرت حمزہ ؓ کا مسلسل تعاقب کر رہا تھا اورموقع کی تلاش میں تھا ،ایک مقام پر چھپ کے بیٹھ گیا۔ حضرت حمزہ ؓ مقابلہ کرتے ہوئے اسکے قریب سے گزرے تو اس نے چھپ کر نیزے سے وار کیا جو آپؓ کی ناف مبارک سے ہو کر پشت سے نکل گیا اور سیدنا امیر حمزہ ؓ نے جام شہادت کا عظیم مرتبہ پایا ۔پھر ہندہ نے آپ ؓکے جسم مبارک کی بے حرمتی کی اور آپؓ کا شکم مبارک چاک کر کے جگر کو نکالا اور چبا کر نگلنا چاہا مگر نگل نہ سکی۔ بعد میں جب فتح مکہ کے موقع پر ہندہ اور وحشی دونوں نے کلمہ پڑھا تو نبی کریم ؐنے دونوں کو حکم دیا کہ وہ کبھی آپؐ کے سامنے نہ آئیں۔ حضور پاک ؐ اپنے چچا کی شہادت پر اس قدر روئے کہ کبھی پھر آپؐ کو اس قدر روتے نہیں دیکھا گیا ۔صحابہؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ؐحضرت حمزہ ؓ کے جنازے کو قبلہ سمت رکھ کر بہت روئے حتیٰ کہ آپؐ کی ہچکی بندھ گئی۔ پھر سیدنا حضرت امیر حمزہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا’’ اے حمزہ۔اے اللہ کے شیر۔اے رسولؐ کے شیر،اے حمزہ ، اے بھلائی کے کام کرنے والے،اے تکالیف کو دور کرنیوالے اے رسول کے چہرے کی حفاظت و حمایت کرنے والے۔‘‘۔
- 15 شوال المکرم 3ہجری کو جنگ احد ہوئی اور یہی آپؓ کی شہادت کا مقدس دن ہے۔
جب شہدا ئے احد کے کفن دفن کا وقت آیا تو سیدنا امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ کوا یک چادرکاکفن دیا گیا جو اتنی چھوٹی تھی کہ سر ڈھانکتے تو پائوں کھل جاتے اور پائوں ڈھانپتے تو چہرہ کھل جاتا تھا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ چہرہ ڈھک دو ۔ آپ نے ان کے پائوں پر حرمل (جو کہ ایک گھاس ہے جسے فارسی میں سپندکہتے ہیں رکھ دی ۔
- اس روز حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ شہداء میں وہ پہلے شخص تھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جن کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر اور شہداء آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس یکے بعد دیگرے جمع کیے گئے ۔ جب کسی شہید کو لایا جاتا تو اُسے سیدالشہدا حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کے پہلو میں رکھ دیا جاتا، پھر ان پر اور اس شہید پر نمازجنازہ پڑھی جاتی ۔اس طرح آپ رضی اﷲ عنہ کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ۷۰مرتبہ آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ سرکارِد وعالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم باقاعدگی سے آپ رضی اﷲ عنہ کی قبرِ انور پر تشریف لے جاتے اور دعائے مغفرت فرماتے ۔ ابی جعفر سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا ،سیدناامیر حمزہ رضی اﷲ عنہ کی قبر پر تشریف لاتیں، اس کی مرمت اور اصلاح فرمایاکرتی تھیں۔ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ میرے چچا حضرت امیر حمزہ(رضی اﷲ عنہ) قیامت کے دن میری اونٹنی پر سوار ہوکر میدانِ حشر میں آئیں گے ‘‘ ۔ بلاشبہ امیرِطیبہ، ،اسدُاﷲ ِواسدُالرّسول ،سیدُالشہدا، سیدناابو عمارہ امیر حمزہ کاشف الکرب رضی اﷲ عنہ اسلام کے وہ درخشندہ ستارے ہیں جن کی محبت و عظمت کی ضیا پاشیوں سے مسلم امہ کے دل اس جہانِ ہست و بودکے فنا تک منور رہیں گے اوران کی عقیدت کے ڈنکے بجتے رہیں گے
آپؓ اور دوسرے شہداء کے مزارات جبل احد پر واقع ہیں جنہیں بعد میں منہدم کردیا گیا ( انا للہ و انا الیہ راجعون) اور ایک احاطے کی شکل دی گئی ہے۔ سرکار دوعالم ؐکے عاشقان آپؓ کے مزار پر حاضری دینے ضرور جاتے ہیں اور فیوض و برکات پاتے ہیں۔ اللہ آپؓ کے صدقے میں امت رسول ؐ کی بخشش کرے اور ہماری تمام مشکلات کو آسان فرمائے۔ آمین
مآخذ:الاصابہ،طبقات ابن سعد؛ج اول، مدارج النبوہ،اسد الغابہ،ضیاء النبی)