دین است حسین(ع) / دیں پناہ است حسین(ع)
نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟
حسین مفہوم “ھَل اَتٰی” ہے
حسین سلطانِ دین و ایماں
حسین دستورِ حق کا بانی
حسین کردارِ اہلِ ایماں
حسین معیارِ زندگانی
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین کا دوست ہے وہ میرا دوست اور جو حسین کا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے یہی وجہ ہے
اللہ کریم نے حضرت امام حسین ؑ کو ایسا یکتا بنایا ہے کہ رسول ﷺ کی گود سے دوش تک اور دوش رسول اکرم ﷺ سے لے کر نوک نیزہ تک کبھی امام حسین ؑ نے نماز رکوا دی اور کبھی خود نوک نیزہ پر تلاوت فرمائی۔ ہمیشہ ہر حالت میں امام عالی مقام سرفراز ہی رہے جناب رسول خدا ﷺ نے ظہور امام حسین ؑ کے دن ہی ان کی پر درد شہادت کی خبر بھی سن لی ۔یعنی خدا تعالیٰ نے چن لیا اس دین کیلئے حضرت امام حسین ؑ کو ۔ تبھی تو قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
انا اعطینٰک الکوثر
اے نبی ﷺ ہم نے آپ کو کثیر (اولاد)دیدی
اور پھر فرمایا
انا شانئک ھوا لابتر
بے شک تمھارا دشمن بے نام و نشان رہے گا
کیسا میرے حسین ؑ کا مقام ہے کہ اپنے انتخاب کو کس قدر خوبی سے سچ ثابت کر دکھایا اور میدان کربلا میں جہاں صبر مشکل تھا وہاں شکر کرتے رہے اور امتحان کی طویل گھڑی میں بھی ایک لمحے کیلئے بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہیں ہوئے
فرمان امام حسین ؑ بر میدان کربلا
اے اللہ جس نے تجھے پالیا اس نے کیا کھویا اور جس نے تجھے کھو دیا اس نے کیا پایا۔
اب بھی چمک رہا ہے حسین ؑ و علی ؑ کا نام
اور خاک اڑ رہی ہے یزید و زیاد لعین کی
یہی تو خدا کی توحید کی سب سے بڑی دلیل تھی کہ اس نے رسول ارکم ﷺ کی ذریت مٹانے کی کوشش کرنے والوں کو مٹا کر رکھ دیا اور حضرت امام حسین ؑ اور ان کے بہتر ساتھیوں کو حیات جادوانی نصیب ہوئی۔
میدان کربلا میں امام عالی مقام نے خدا کی توحید کی بھی انوکھی ترین تفسیر پیش کر کے دیدی۔ کہ اکیلے سر کرب و بلا ، خدا کے عاشق کے طور پر کھڑے رہتے، اپنے لخت جگر دیدئے ، نور نظر قربان کر دیئے ، سارا گھر دیدیا مگر پھر سجدہ شکر ادا کیا اور سجدے میں قربان ہونا سعادت سمجھا۔
سجد ہ میں جو رکھا سر تو پھر اٹھایا نہیں
میرے حسین ؑ کی اب تک نماز جاری ہے
صبح سے شام تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے والے حسین ابن علی ؑ نے دکھایا کہ اس حال میں بھی کوئی ذات ہے جس کیلئے حسین ؑ اپنا سب کچھ قربان کرتے جا رہے ہیں ۔سامنے نو لاکھ فوج ہے لائو لشکر ہے ۔سب کے سب شقی القلب ہیں کوئی بھی انسان نہیں ہے ۔پھر بھی خطبات دیے انہیں بھلائی کی طرف بلایا۔ دعوت دیتے رہے اپنے نانا کی سنت نبھاتے رہے ۔ دین کی دعوت دیتے رہے ۔فجر سے عصر ہوئی مگر حسین ؑ نے بس نہ کی ۔ اپنےنانا کے بوڑھے صحابی حبیب ابن مظاہر سے لے کر سرکار جون تک اور اپنے کڑیل جوان بھائی عباس ؑ سے لے کر اپنے شیر خوار معصوم علی اصغر ؑ تک سب ہی نگینے ایک ایک کر کے دے دیئے پھر کہا
میرا اللہ ۔۔۔اب تو راضی ہے
پانی بھی شرمندہ تھا حسین ؑ سے چرند پرند ، دنیا کا ہر ذی روح پانی پی رہا تھا مگر اک حسین ابن علی ؑ اور ان کے اصحاب اور بچوں پر پانی بند تھا مگر حرف شکایت کسی کی زبان پر نہ آئی۔
صدقِ خلیل بھی ہے عشق،
صبر حسینؑ بھی ہےعشق
معرکۂ وجود میں. . . .
بدر و حنین بھی ہے عشق
کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق
کبھی سوز و سرور انجمن عشق
کبھی سرمایۂ محراب و منبر
کبھی مولا علی خیبر شکن عشق
یہی تو دین و ایمان اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے محبت کی دلیل ہے جس کیلئے جناب رسول خدا ﷺ کا والہانہ پیار و عشق تھا حسین ؑ سے ۔پرورش بھی خود کی اپنا لعاب دہن چوسایا اور ظہور امام حسین ؑ کے دن ہی ان کی شہادت کا پیغام بھی مل گیا۔آپ ﷺ نے اس دن گریہ کیا اور حضرت فاطمہ سلام الہہ علیہا سے کہافاطمہ تم جانتی ہو میں حسین ؑ کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ خدا کے دین کیلئے جہاں نانا نے کانٹو ں پر چل کر پیغام حق عام کیا اور خدا کی راہ میں وہ مصائب و آلام برداشت کیے جو اس سے پہلے نہ کسی نے سنے تھے اور نہ کسی نے برداشت کئے بے شک یہی ایسے اوصاف ہیں جو سلطان دین و ایمان کے ہوا کرتے ہیں ۔ یہی اوصاف تو میدان کربلا میں امام حسین ؑ نے بھی پیش کردیے ۔اپنے نانا کی پرورش کا حق ادا کردیا۔ ،
خواجہ اجمیری نے دین محمد (ص) کو حضرت امام حسین (ع) کے نام سے موسوم کرکے واضح کردیا ہے کہ نبی کریم (ص) کا اصلی دین اور اصلی اسلام حضرت امام حسین (ع) کے پاس ہےاور حسین بن علی (ع) کے بغیر دین اسلام کی شناخت ممکن نہیں ہے۔
محرم الحرام کا آغاز ہوتے ہی نبی کریم (ص) کے نواسے حضرت امام حسین (ع) اور ان کے بہتر باوفا ساتھیوں کی دین اسلام کو بچانے کے سلسلے میں کربلا کے میدان میں عظيم الشان قربانی کی یاد پوری دنیا میں منائي جاتی ہے۔تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ نظام ہماری وجہ سے چل رہا ہے یہ الہی نظام ہے
ہل جزا الاحسان الاحاسان
احسان کا بدلہ احسان کے سوا اور کچھ نہیں
اللہ تعالیٰ نے قربانی اسماعیل کو زندہ رکھنے کا انتظام فرمایا تواس قربانی کی تکمیل جو قربانی امام حسین ؑ پر ہوگئی اس قربانی کو بنی نوع انسان کو کیسے فراموش کرنے دے گا۔یہ الہی نظام ہے جو حسین اپنے خدا کا نام نیزے کی نوک پر بلند کرتے رہے ان کا نام آج وہاں وہاں گونج رہا ہے جہاں ابھی تک اذان کی آواز بھی نہیں پہنچی۔مسلمان سرکار دوعالم (ص) کو ان کے نواسے پر ہونے والے مظالم کے سلسلے میں پرسہ اور تعزيت پیش کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین کا دوست ہے وہ میرا دوست اور جو حسین کا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے یہی وجہ ہے خواجہ اجمیری نے دین محمد (ص) کو حضرت امام حسین (ع) کے نام سے موسوم کرکے واضح کردیا ہے کہ نبی کریم (ص) کا اصلی دین اور اصلی اسلام حضرت امام حسین (ع) کے پاس ہےاور حسین بن علی (ع) کے بغیر دین اسلام کی شناخت ممکن نہیں ہے حسین نے اسلام کو بچایا بھی اور پناہ بھی دی۔
شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دین است حسین دیں پناہ است حسین
سرداد نداد دست در دست یزید
حقا کہ بنای لاالہ است حسین
خواجہ اجمیری (رہ)
تحریر و تحقیق، سید معارف الحسین