ہندوستان کی تاریخ کا سب سے طاقتور اور کامیاب ترین حکمران جلال الدین اکبر اپنے مشیروں وزیروں مصاحبین خاص کے ساتھ شاہی دربار میں تخت شاہی پر پوری شان و شوکت اور شاہی جلال کے ساتھ جلو ہ افروز تھا تمام درباریوں کی گردنیں با دشاہ کے احترام میں جھکی ہو ئی تھیں اور چہروں پر خو شامدی تاثرات واضح نظر آ رہے تھے پو رے دربار پر سنا ٹا طا ری تھا لیکن با دشاہ کے سامنے ایک درویش خدا مست ادائے بے نیاز ی سے کھڑا تھا درویش کا حلیہ بھی عجیب تھا مو نچھ داڑھی غائب ہا تھ میں ساغر و مینا اور اپنے ہی نشے میں مست با دشاہ کے شاہی کرو فر کو جو تے کی نو ک پر رکھ کر بے خو فی سے کھڑا تھا درویش کی اس بے باکی اور لا پرواہی آداب شاہی کی گستاخی پے ایک درباری اٹھا اور بادشاہ کے کان میں سرگوشی کی کہ جہاں پنا ہ یہ درویش شاہی آداب کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے اس کا جرم نہایت سنگین ہے اور اِس کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے دوسرے دربا ریوں نے بھی خو شامد کر تے ہو ئے کہا اِس کمتر انسان نے اکبر اعظم کے جلال کو دعوت دی ہے۔
اکبر نے صبر و تحمل کا مظا ہرہ کر تے ہو ئے درویش سے مخاطب ہوااور کہا درویش یہ تمہا را حلیہ کیا ہے تم نے خو د کو غیر شرعی کیوں بنا رکھا ہے جبکہ ہمیں بتا یاگیا ہے کہ تم سلسلہ قادریہ میں با قا عدہ بیعت بھی ہو درویش کے چہرے پر دلنواز تبسم پھیل گیا بے خو ف با وقا ر لہجے میں درویش کی بارعب آواز نے شاہی دربار کے سکو ت کو توڑا شراب کی صراحی سے ایک جام بھرا اور با دشا ہ کے سامنے پیش کر تے ہو ئے فرمایا جناب آپ خود دیکھ لیں اِس جام میں کیا بھرا ہوا ہے شہنشاہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ جام میںٹھنڈا پا نی بھرا ہوا تھا درویش پر جذب و سکر کا عالم طا ری تھا دوسرا جام بھر کر شہنشاہ کو پیش کیا جو خالص دودھ سے بھرا ہوا تھا صراحی ایک ہی تھی لیکن ہر بار اُس نے نئی چیز برآمد ہو رہی تھی با دشاہ اور اُس کے مصاحبین کے چہروں پر حیرت کیساتھ اب خوف کے تاثرات بھی شامل ہو گئے تھے۔
با دشاہ نے خو د کوسنبھالا اور حکم جاری کیا کہ اُس کے ذاتی شراب خا نے سے شراب کی بڑی صراحی اور آٹھ پیا لے منگوائے جا ئیں اور پھر یہ صراحی اور آٹھ پیا لے درویش کو دے دئیے گئے درویش پر ایک خا ص حالت اور رنگ طا ری تھا درویش نے با دشاہ کے آٹھو ں پیا لے بھر دئیے دربا ری اور با دشاہ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹو ٹ پڑے جب انہوں نے دیکھا کہ ہر پیا لے میں مختلف چیز بھری ہو ئی تھی پا نی دودھ جو س شربت پھلوں کے رس وغیرہ با دشاہ شکست کھا چکا تھا لیکن وہ ابھی بھی ہا ر ماننے کو تیار نہ تھا وہ دھا ڑتے ہو ئے بولا اے شعبدہ باز درویش ہم تمہا ری کرا مت پر یقین نہیں کر تے ہمیں کو ئی اور کرا مت دکھا درویش مسکرایا اور بے نیازی سے بو لا ٹھیک ہے جس طرح آپ چاہیں اب با دشاہ نے درویش کو چیک کر نے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈا اُس کو ایک بندکمرے میں قید کر کے تا لا لگا دیا اور دروازے پر پہرے دار کھڑے کر دئیے اب با دشاہ دربار سے اٹھ کر جب اپنے کمرہ خاص میں پہنچا تو پتھر کا بت بن گیا کیونکہ اُس کے سامنے نا قابل یقین منظر تھا درویش با دشاہ کی بیوی کے پاس بیٹھا با تیں کر رہا تھا با دشاہ بے یقینی کے عالم میں واپس اُس کمرے کی طرف دوڑا جہاں درویش کو قید کیا گیا اور پھر اکبر کے حکم پر درواز ہ کھو لا تو با دشاہ حیرت کے شدید جھٹکے سے گزرا کہ درویش دیوار سے ٹیک لگا ئے آنکھیں بند کئے اپنی ہی مستی میں گم تھا حقیقت الفقرا ء کی اِس روایت کے مطابق یہ خاص منظر دیکھ کر با دشاہ کی رہی سہی ہمت بھی دم تو ڑ گئی درویش کی حقیقی روحانی قوت اور کرامت دیکھ کر با دشاہ آگے بڑھا اور درویش کے قدموں میں سر رکھ دیا اِس طرح با دشاہ نے درویش کے روحانی مقام کو تسلیم کر لیا شہنشاہ اکبر درویش کے قدموں سے لپٹا ہوا تھا اور درویش جذب کے عالم میں بو ل رہا تھا۔
بادشاہ ہمیں جانے دو ورنہ تمہاری با دشاہت ریزہ ریزہ ہو کر بکھرجا ئے گی بادشاہوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خا ک نشینوں کو اپنے دربارمیں بلا کر اِس طرح تنگ کریں با دشاہ نے عقیدت و احترام کا مظا ہرہ کیا اور سوال کیا اے صاحب ولا یت آپ واقعی اللہ کے خاص بندے ہیں آپ اِس اعلی مقام تک کس طرح پہنچے تو درویش بو لا میںخدا تک نہیں پہنچا بلکہ خدا خود میرے پاس آیا ہے با دشاہ کا درباری جو اپنے علم و آگہی کے زعم میں گرفتار تھا وہ بو لا اِس کا کیا ثبو ت سے کہ خدا خود تمہا رے پا س آیا ہے درویش نے با د شاہ کی طرف غور سے دیکھتے ہو ئے کہا اے شہنشاہ ہندوستا ن تو پو رے ملک کا حکمرا ن ہے سیدھی سی با ت ہے اگر تو نہ چاہتا تو یہ درویش تجھ تک کیسے پہنچتا با دشاہ نے عزت و احترام سے درویش کو شاہی محل میںٹھہرایا اور دعائوں کی درخواست کی یہ درویش اپنے وقت کے مشہور معروف اور پنجاب کی دھرتی کے مشہور صوفیوں میں سے ایک حضرت شیخ حسین لا ہوری تھے تصوف کے آسمان پر حضرت ما دھو لال حسین کے نام سے مشہور ہیں۔
آپ کا شما ر سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگوں میں ہو تا ہے آپ زیادہ تر سرخ رنگ کا لبا س پہنا کر تے تھے اِ س لیے آپ کو لال حسین کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے آپ کے آبا و اجداد ہندو تھے آپ کے دادا کا نام کلجس تھا اور وہ راجپوت قوم ڈھڈا سے تعلق رکھتے تھے با دشاہ فیروز شاہ کے زمانے میں آپ کے والدنے اسلام قبول کیا تو ان کا اسلامی نام شیخ عثمان رکھا گیاآپ کے والد کپڑے کا کام کر تے تھے شاہ حسین ١٥٣٨ میں شہر لا ہور میں پیدا ہو ئے جب آپ کی عمر سات سال کی ہو ئی تو آپ کو قرآن پاک کی تعلیم کے لیے مکتب بھیجاگیا آپ نے اپنے وقت کے مشہور عالم حافظ ابو بکر سے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا جب آپ نے چھ سپا رے حفظ کرلیے تو ایک دن دوران درس قطب زمان حضرت بہلول وہاں تشریف لا ئے حضرت بہلول حضرت امام مو سی کاظم کے مزارپر مراقب تھے کہ آپ کو حکم ملا کہ لا ہور حضرت ابوبکر کے مدرسے میں کمسن طالب علم لال حسین کی تربیت کریں۔
جب لال حسین حضرت بہلول کے سامنے پیش کئے گئے تو حضرت بہلول نے لال حسین سے کہا جا ئو اور دریا سے میرے لیے وضو کا پا نی لے کہ آئو لال حسین جب دریا پر پہنچے تو ایک نو رانی بزرگ کو موجود پایا بزرگ نے لال حسین سے پا نی کا لو ٹا لے کر آپ کے چہرے اور سر کو دھو ڈالا اور کہا جا ئو جا کر حضرت بہلول کو قرآن مجید سنائو لال حسین نے آکر سارہ واقعہ حضرت بہلول کو سنا یا تو وہ بو لے وہ بزرگ حضرت خضر تھے جو تمہیں با طنی علم دے کر چلے گئے پھر حضرت بہلول نے وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھی اور دربار حق میںلال حسین کے علم اور عرفان کی دولت کی دعا کی حضرت بہلول کی دعا قبول ہو ئی اب حضرت بہلول نے اعلان کیا کہ اب رمضان میں قرآن پاک لال حسین سنا ئے گا استاد اور لال حسین حیران لیکن لال حسین با طنی دولت سے سرفراز ہو چکے تھے آپ نے رمضان میں پو را قرآن مجید سنا یا یہ آپ کی پہلی کرا مت تھی جو اہل لا ہو ر نے دیکھی پھر حضرت بہلول نے لال حسین کو اپنا مرید بنا یا خرقہ خلا فت سے نوازا اور فرمایا اے شاگرد عزیز میرے پاس تمہا را جتنا حصہ تھا وہ میں نے تمہیں عطا کیا اب تمہا ری اگلی تربیت شہنشاہِ لا ہور داتا حضو ر کریں گے اب تم بلا نا غہ داتا گنج بخش جایا کرو گے پھر لال حسین 12 سال تک بلا نا غہ داتا حضور حاضری دیتے رہے ایک دن ایک نورانی بزرگ سامنے آئے جنہوں نے کہا لال حسین میںعلی ہجویری ہوں آئو اپنا حصہ لے لوپھرلال حسین ولا یت سے سرفراز اور شراب وحدت سے سرشار ہو کر قیا مت تک کے لیے امر ہو گئے۔