انسان کرہ زمین پر قدم رکھتے ہی فطرت کو سمجھنے اوراسکے اسرار و رموز جاننے کی جستجو میں لگ گیا. دنیا میں ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ جب تاریخ عالم میں ’’معجزات‘‘ کا بڑا ذکر ہوا. یہ معجزات انسانی استدلال اور منطق پر حاوی تھے-
بے شک معجزے کی تعریف یہ ہے کہ کو ئی ایسی بات یا ایسا وا قعہ جو انسانی زندگی میں ظہور پذیر تو ہوا مگر بنی نوع انسان کے پاس اسکی کو ئی تشریح نہ تھی . عہد قدیم کے معجزات کا آ ج کی جدید سائنسی روشنی میں تجزیہ کرنا نہایت مشکل کام ہے کیونکہ ہم ماضی میں پلٹ کر نہیں جاسکتے تاہم چند معجزات ایسے ہیں جنہیں پر کھا جاسکتا ہے . انہی معجزات میں سے ایک حضرت موسیٰ ؑ کا عصا کو سمندرپر مارنا‘ پانی کا معجزانہ طور پر پھٹ کر ان کو رستہ دینا اور فرعون کو اسکے لشکر سمیت دریائے نیل میں غرق کرنے کا ہے جسے ہم ایک سائنسی تو جہیہ کے ساتھ بیان کر یں گے.فرعون مصر کے بادشاہ کا لقب تھا. حضرت موسیٰ ؑ جس فرعون کے زمانے میں پیدا ہوئے اس کا نام قا بوس ابن مصعب ابن ریان تھا. کردار کے لحاظ سے یہ فرعون بابل کے نمرود کا بھائی تھا‘ دونوں ہی نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا.مورخین کے مطابق جب آ پ کا سن مبارک80 سال کے لگ بھگ ہوا تو اﷲ تعالی نے آ پ ؑ کو منصب رسالت کے لیے منتخب کیا اور خالص تو حید کی تعلیم فرمائی گئی اور فرعون اور اسکی قوم کی ہدایت کے لیے مامور کیا.
آ پ ؑ نے مصر کا رخ کیا اور اپنے بھائی ہارون کو ساتھ لے کر فرعون کے پاس پہنچنے اور اس سے دو مطالبات کئے .پہلا یہ کہ اپنے آپ کو خدا کہلوانا چھوڑ دے اور اس ایک خدا کی بارگاہ میں جھک جاؤ جو تمام جہانوں کا مالک ہے. دوسرا‘ بنی اسرائیل پر جو ظلم و ستم روا رکھا ہے اسے چھوڑ دے . قاہرو مطلق انسان فرعون جس کو صرف اپنی حکو مت وبادشاہت ہی کا غر ور نہیں اپنی خدائی اور ربوبیت کا بھی دعویٰ تھا وہ اس ضربِ کلیمی کو برداشت نہ کر سکا اور حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دئیے. حضرت موسیٰ ؑ صبر و استقلال کے ساتھ دینِ حق کی تبلیغ کرتے رہے. اسی دوران یہ حکم نازل ہوا کہ بنی اسرائیل مصریوں سے علیحدہ اپنی بستی آ باد کریں اور مصر سے نکل جانے کا حکم ہوا. نیز یہ بھی بتا دیا گیا کہ فرعون کی طرف سے تمھارا تعاقب کیا جائے گا لیکن وہ اور اس کا لشکر غرقاب ہو گا. وہی ہوا . آ پ ؑ مصر سے معہ اپنے ساتھیوں کے روانہ ہوئے تو پیچھے پیچھے فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت تعاقب کر رہا تھا.
جب بحر قلزم کے قریب حضرت موسیٰ ؑ پہنچے تو آ پ ؑ نے (خدا کے حکم کے تحت) اپنے عصاکو پانی پر مارا جس سے سمندر میں ایک خشک گزر گاہ بن گئی اور آ پ معہ ساتھیوں کے گزر گئے. ادھر جب فرعون تعاقب کرتا ہوا اسی راستہ سے گزرا تو اﷲ نے پانی کے شگاف کو دوبارہ ملا دیا‘ اس طرح فرعون اپنے تمام کروفر کےساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرق ہو گیا. اﷲ کی اس مدد کا ذکر قرآن میں کچھ یوں ہے: ’’ اور ہم نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا سمندر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اتر جاؤ ‘ اسے دو حصوں میں پاٹ دیا ‘ہر حصہ جیسے اونچی اور ہم باقیوں کو اس تک لے آ ئے. ‘‘ بعض شارحین نے اس کو غالباً فلکیاتی اسباب کی بناء پر ایک مدو جزر کا واقعہ خیال کیا‘ بعض نے اس کو کسی دورافتادہ مقام پر ہونے والے آ تش فشانی کے عمل سے متعلق ایک زلزلہ سمجھا لیکن یہ سب کچھ ایک خالص مفرو ضہ ہے . حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کا سمندر سے گزرنے کا واقعہ بہت سی تحریروں اور سائنسی مطالعوں کا موضوع رہا ہے. جدید سائنسی تحقیق کے مطابق سائنس دان سمندر کی دو پاٹوں میں تقسیم کے متعلق معنی خیز نتائج پر پہنچ چکے ہیں اور یہ نتائج مکمل طور پر قرآن کی مثالوں کے عین مطابق ہیں.الیکسی اینڈرسن اور نوم وولزینگر دو روسی ریاضی دانوں نے ثابت کیا کہ حضرت موسیٰ ؑ نے سمندر کے ٹکڑے واقعی کیے ہوں گے ‘ان دونوں سائنس دانوں نے ان حالات کی چھان بین کی اوراس معجزہ کی تصدیق تک پہنچ گئے. روس کے بلٹن روس آف اکیڈمی آف سائنس میں شائع ایک مقالے کے مطابق اس وقت بحیرہ احمر میں سطح کے عین قریب ایک سمندری چٹان تھی وہاں سے سائنسدانوں نے ہوا کی رفتار اور طوفا ن کی طاقت کا اندازہ کیا جو اس خشک چٹان کو اونچا کرنے کو درکار تھایوں واضح ہو گیا کہ ہوا کی رفتار 30 میٹر پر سکینڈ نے سمندر کو پچھا ڑ دیا ہو گا اور چٹان سامنے آ گئی ہوگی وولزینگر کے مطابق ’’اگر ہوا 30 ایم ٹی آر/ایس یو سی کے حساب سے ساری رات چلتی رہی ہوگی تو چٹان خشک اور سامنے آ گئی ہو گی.‘‘ مزید یہ کہ فرعون کے لشکر کی تعداد 600000 تھی اور انہیں اس 7 کلومیٹر کی چٹان کو پار کرنے میں چار گھنٹے درکار تھے جبکہ پانی نے آ دھے گھنٹے میں واپس آ جانا تھا. اس معجزے کو نیوٹن کے قوانین کی روشنی میں بھی جانچا گیا تو سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’ ہم معترف ہیں کہ خدا طبیعات کے قوانین کے ذریعے زمین پر حکومت کرتا ہے . ‘‘ لہٰذا اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ خدا جب چاہے کیسے بھی حالات پیدا کر سکتا ہے. یہاں معجزانہ پہلو یہ ہے کہ یہ سب واقعات یعنی ہوا کی رفتار ‘ وقت اور جگہ یہ سب حضرت موسیٰ ؑ کے گروہ کے پہنچنے پر ہی رونما ہو ئے‘ پا نی کاسکڑنا اور فرعون کے لشکر کے سمندر پار کرنے پر پانی کا واپس آ جانا اس بات کی واضح مثال ہے کہ یہ واقعہ ایک معجزہ ہے. یہی دریا جس نے حضرت موسی ٰ ؑ اور انکے ساتھیوں کے وہا ں پہنچنے پر انہیں راستہ دیا‘ اسکے پانی کے بارے میں قرآن پاک کی سورۃ25 کی آ یت نمبر53 میں ارشاد ہے کہ ’’ اور وہی ہے جس نے دو سمندر آ پس میں ملا رکھے ہیں ‘یہ ہے میٹھے اور مزید ار اور یہ ہے کھاری اور دونوں کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط اوٹ کر دی جو انہیں گڈ مڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے‘‘. یہ سائنسی مظہر قدرت جس کا ذکر قرآن میں آ یا ہے اسکی تصدیق جدید سائنس نے بھی کر دی ہے . ڈاکٹر ولیم جو تجربات کے نامور سائنسدان بھی ہیں اور امریکا کی کولو راڈ و یو نیورسٹی میں ارضی سائنسز کے شعبے میں بطور پروفیسر بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان کے مطابق جہاں دو مختلف سمندر آ پس میں ملتے ہیں ان کے درمیان ایک دیوار بھی حائل ہو تی ہے.اس بات کا تذکرہ قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے بیان فرما دیا تھا .ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اس نے دو دریا جاری کر دئیے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ‘ان دونوں میں ایک آ ڑ ہے کہ ا س سے بڑھ نہیں سکتے. ‘‘اور اب جدید سائنس نے واضح کر دیا ہے کہ یہ دیوار دو سمندروں کو جدا کرتی ہے تاکہ ان دو میں سے ہر ایک کے پانی کا درجہ حرارت اپنا اپنا رہے. ان کی نمکیاتی سطح (کھاری پن)اور کثافت جداجدا رہے. جب ایک سمندر کا پانی دوسرے سمندر کے پانی کی خصوصیات اختیار کر لیتا ہے .ایک طرح سے یہ دیوار دو سمندروں کے پانیوں کے درمیان عارضی طور پر ہم جنس یا ہم صفت بنانے کا کام کرتی ہے. یہ بات بھی دریافت ہوئی ہے کہ سمندروں کے چوڑے دہانوں پر جو شے میٹھے تازہ پانی کو نمکین پانی سے الگ اور ممیز کرتی ہے اسے “ویس نوکلین”زون کہتے ہیں .یہاں وہ کثافت قابلِ ذکر حد تک ختم ہو جاتی ہے جو دو تہوں کو جدا کرتی ہے . یہ حد بندی تازہ میٹھے پانی اور نمکین پانی دونوں سے مختلف کھارا پن رکھتا ہے. دریائے نیل کے علاوہ یہ مظہر قدرت کئی اور مقامات پر بھی واقع ہوتا ہے. جبرالٹر کے مقام پر بحیرہ روم اور بحیرہ اوقیانوس کے پانیو ں کو منقسم کرتا ہے . ایک سفید دھاری پٹی جنوبی افریقا کے علاقے جزیرہ نما کیپ میں واضح طور پر نظر آ تی ہے جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کا مقام اتصال ہے.