ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گُرو نے اپنے چیلے کو بولا کہ حقہ جلانے کے لیے کہیں سے آگ لے کر آئو۔ چیلا آگ کی تلاش میں چلتا گیا،چلتا گیا اور جہنم کے دروازے تک پہنچ گیا۔ وہاں اس نے جہنم کے داروغہ سے کہا کہ اسے آگ چاہئیے۔ جہنم کے داروغے نے جواب دیا کہ جہنم میں کوئ آگ نہی ہوتی، ہر بندہ اپنی آگ دنیا سے ساتھ لے کر آتا ہے۔
اسی طرح اکثر مریض بھی اپنی بیماری اپنے ساتھ خود لے کر آتے ہیں۔ اکثر مریض اسپتال آنے سے پہلے اپنے جسم کی مناسب صاف صفائی کرتے ہیں تا کہ ڈاکٹر صاحب جب معائینہ کریں تو انہیں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ خواتین کی بات کی جائے تو وہ سرخی پائوڈر بھی لگا لیتی ہیںان میں سے اکثر خواتین کو کوئی خاص بیماری بھی نہیں ہوتی۔ پھر بھی گاؤں سے پچاس کلومیٹر کا سفر طے کرکے یہ اسپتال آتی ہیں۔ لمبی قطار میں لگ کر معائنے کی پرچی بنواتی ہیں۔ جب ان کے معائینے کی باری آتی ہے تو ڈاکٹر صاحب کو بتاتی ہیں کہ اُن کے پورے جسم میں درد ہی درد ہے اور یہ درد پچھلے دس سال سے ان کا ساتھی ہے۔ ضد کر کے پیٹ کا الٹرا ساؤنڈ کرواتی ہیں جو کہ نارمل ہی ہوتا ہے۔ بس الٹرا سائونڈ کروا کر ان کی تسلی ہو جاتی ہے اور وہ تمام درد غائب ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح اسلم (فرضی کردار)ایک گاؤں کا رہنے والا مزدور تھا۔ اس نے ٹی وی پر سنا کہ شہر کے سرکاری اسپتال میں ہیپاٹائٹس کا علاج مفت کیا جاتا ہے اور گھر کے ہر فرد کو سال کے بعد یہ ٹیسٹ لازمی کروانا چاہئے کیونکہ بروقت تشخیص سے ہی اس مرض کا علاج ممکن ہے۔اسلم نے بھی اسپتال سے مفت ٹیسٹ کروانے کا سوچا۔ شہر جانے سے پہلے اس نے اپنا حلیہ بہتر کرنے کے لیے حجام کی دکان کا چکر لگایا اور اس سے بالوں کی کٹنگ اور شیو بنوائی۔ گاؤں میں اب بھی یہی رواج ہے کہ ایک ہی حجام سارے گاؤں کی کٹنگ وغیرہ کرتا ہے۔ استرے اور بلیڈ کی صفائی کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا۔ ایک ہی بلیڈ سے دس بیس لوگوں کو بھگتایا جاتا ہے۔ اسلم کی بھی شیو ایک ایسے ہی بلیڈ سے کی گئی اور اس بلیڈ پر موجود ہیپاٹائٹس کے جراثیم اس کے جسم میں داخل ہوگئے۔
خیر اس سب سے فارغ ہو کر جب اسلم شہر کے اسپتال میں ہیپاٹائٹس کے ٹیسٹ کروائے تو اسکو علم ہوا کہ وہ ہیپاٹائٹس سی کا مریض ہے۔ ایک چھوٹی سی لاپرواہی کی وجہ سے اب اسے چھ ماہ کی دوائ کھانی پڑے گی جس سے یہ مرض ختم ہو گا۔
آپ نے وہ محاورہ سنا ہو گا کہ پہلے گناہ کرو تا کہ بعد میں معافی مانگ سکو۔اسلم کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ گویا پہلے محنت کر کے ہیپاٹائٹس کے جراثیم لگوا لو تا کہ بعد میں علاج کروا سکو۔اور اسپتال میں آنے والے ہیپاٹائٹس کے مریض یہ جراثیم کی آگ اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔
ایک گاؤں کا حجام بغیر کسی رنگ و نسل کے فرق کے یہ جراثیم سب کو یکساں تقسیم کررہا ہوتا ہے۔ حال ہی میں چنیوٹ کے ایک گاؤں میں جب ٹیسٹ کئے گئے تو چار ہزار کی آبادی میں سے 250 کو ہیپاٹائٹس اور 40 کو ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی۔
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ نلکے کا پانی پینے سے ہیپاٹائٹس ہو جاتا ہے۔اسی کو بنیاد بنا کر منرل واٹر پینے والی کمپنیاں پاکستان میں اربوں روپے کا پانی بیچ رہی ہیں۔ حقیقت میں صرف ہیپاٹائٹس اے ہے جو نلکے کے پانی سے پھیلتا ہے۔اگر آپ اس پانی کو اُبال کر پئیں تو اس کا بھی خطرہ نہی رہتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور ہیپاٹائٹس سی خون کے انتقال اور ایک متاثرہ شخص کے بلیڈ سے دوسرے کی شیو کرنے سے پھیلتے ہیں۔
حکومت پنجاب نے اب ہر ضلع میں ہیپاٹائٹس فلٹر کلنک بنا دیے ہیں جہاں ہیپاٹائٹس کی بروقت تشخیص کی جاتی ہے۔ اپنے آُپ کو اس مہلک بیماری سے بچانے کے لیے احتیاط سے کام لیں۔ کسی ایسے حجام سے بالکل شیو نہ کروائیں جو ایک ہی بلیڈ سے کئی لوگوں کو نبٹانے کا عادی ہو۔ ہو سکے تو خود ہی اپنی شیو کر لیا کریں۔ ایک چھوٹی سی احتیاط آپ کو ایک بڑے مرض سے بچا سکتی ہے۔