سپریم کورٹ میں طیبہ تشدد کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ملزمہ ماہین ظفراور جج خرم علی خان سے متعلق ریمارکس دیئے کہ جب راضی نامے کی حیثیت نہیں تو ضمانت کی بھی کوئی اہمیت نہیں،دونوں کی ضمانت منسوخ کرسکتےہیں ، گرفتار ہوں گے تو خود ہی ضمانت بھی لیں گے،موجودہ شواہد کی روشنی میں ٹرائل کورٹ جرم کی دفعات میں اضافہ کر سکتی ہے۔
سپریم کور ٹ میں طیبہ تشدد کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ اس خاتون کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی جو گھروں کو بچیاں فراہم کرتی ہے، اس کیس میں پردے کے پیچھے ملزمان کو تحفظ فراہم کیا گیا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اگر آج طیبہ بیٹی کے کیس میں ہم نے اختیارات سے تجاوز کیا تو کل اور بھی درخواستیں آ جائیں گی، کیا اس کیس کو دائرہ اختیار سے باہر دوسری عدالت بھجوایا جا سکتا ہے۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ یہاں معاملہ یہ ہے کہ کیس میں ملوث ہونے والا عدلیہ کا حصہ ہے۔چیف جسٹس کا استفسار کیاکہ ہمارے سامنے یہ معاملہ بھی ہے کہ کس عجلت سے اس کیس کا فیصلہ کیا گیا ،ہم اس بات کو بالکل نظر انداز نہیں کر رہے، اس معاملے پر معاونت چاہیے کہ ٹرائل کیس کو اسلام آباد سے پنڈی کورٹس کے دائرہ اختیار میں بھجوا سکتے ہیں کہ نہیں ۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ خرم علی خان آئے ہیں یا نہیں۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کا کہنا ہے کہ خرم علی خان کو نوٹس نہیں کیا گیا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بہت پریشانی ہو رہی ہے کہ ہمارے قانون میں ایسی بچی کا کوئی تحفظ موجود نہیں، وسیع معاملہ ہے ، دیکھنا ہے یہ بچے کدھر سے آتے ہیں؟ بچوں کوملازمت پر کون رکھواتا ہے؟انہوں نے کہا کہ یہ میری غلطی نہیں یہ قانون بنانے والوں کی غلطی ہے، ناقابل ضمانت جرم کی دفعات شامل ہو سکتی ہیں یا نہیں جائزہ لیں۔بچوں کو ملازمت پر رکھوانے کا معاملہ 3 ہفتوں کےلیے ملتوی کر دیا گیا۔مقدمے کو دوسری عدالت منتقل کرنے کے معاملے کی سماعت آئندہ ہفتے ہو گی ۔