تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
ہندوستان ہمارا پڑوسی تو ضرور ہے مگر یہ ہمارا سب سے بڑا دشمن بھی ہے۔ بنئیے کی عیاری نے برصغیر کو پسماندگی کی دلدل سے گذشتہ تقریباََ ستر سالوں سے نکلنے نہیں دیا ہے۔خود تو ہتھیاروں کے انبار لگا رہا ہے اور ہمیں بھی اس امر پر مجبور کیا ہوا ہے۔ کیونکہ ہم بھی ہتھیاروں کی دوڑ میں اس سے پیچھے رہنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ کشمیر جو ہر لحاظ سے پاکستان کو اٹوٹ حصہ ہے اُس پر اس کیسات لاکھ سے زائد غاصب فوجوں کے ذریعے قبضے کی کیفیت گذشتہ 68 برسوں سے برقرار ہے اور ہندوستان کے حکمرانوں کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ساری دنیا سے اقوام متحدہ کی اسمبلی میں وعدے وعیدکشمیر میں استصوابِ رائے کرنے کے کرانے کے باوجود کشمیریوں کو اُن کا حقِ آزادی دینے کو تیار نہیں ہے۔یہ کیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے؟۔
جو کشمیریوں کو انُ کاپیدائشی حق دینے کو تیار نہیں ہے۔دوسری جانب ہماری گذشتہ 16 برسوں کی ناکام خارجہ پالیسی نے کشمیریوں کے اس حق کو اور بھی کمزور کردیاہے۔خاص طور پر پرویز مشرف کے دور کی خارجہ پالیسی نے کشمیر کاذ کو زبردست نقصان پہنچایا۔وہ اس طرح کہ موصوف نے ہندوستان کو (ایل او سی)لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کی اجازت دے کر کشمیر کاذ کوشدید نقصانات سے ہم کنار کردیا اور آج ہندوستان کشمیر کی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر اسرائیل کی طرح غاصبانہ طور پر دیوار اٹھانے کا نعرہ لگا رہا ہے تاکہ مسئلہِ کشمیر کو ہمیشہ کے لئے بے نام کر دے۔اس طرح کشمیریوں کی آزادی پر ہمیشہ کے لئے غلامی کی مہر ثبت کرنے میں کامیابی حاصل کر لے ۔ماضی میں ناعقبت اندیشوں نے جو کیا سو کیا مگر اب نا تو پاکستان کے عوام اور فوج اور نہ ہی کشمیری اس سازش کو کامیاب ہونے دیں گے۔
آج پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کو کشمیر کاذ کے لئے دانشمندانہ پالیسیاں اپنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ماضی سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔اگر ہمارے حکمران اس گمان میںمبتلا ہیں کہ ہندوستان سے تجارت کو بڑھا کر خطے اور خاص طور پر پاکستان میں ترقی کی دوڑ شروع کر دیں گے تو وہ احمقوں کی جنت کے خوابیدہ ہیں۔ہندوستان کا ماضی اس بات کا غماض ہے کہ وہ پاکستان کو معیشت تو کیا کسی میدان میں بھی آگے بڑھنے نہیں دیگااور اسے اپنے قد موں پر ہر گز کھڑا نہ ہونے دے گا۔چانکیہ کے اصولوںاور پالیسیوں کے تحت اگر پاکستان نے معاشی ترقی حاصل کر لی تو یہ ان کی متعصبانہ پالیسیوں کی شکست وریخت کا سبب بن جائے گی۔اس کی مثال پاک چائنا کوریڈور کی تعمیر پر ہندو ستان کے کھلے بندوں تعصبات ہیں۔جن پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون سے 27 ستمبر 2015 کو وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں استصوابِ رائے کرایا جائے کیونکہ کشمیر میں ہندوستانی رویئے عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ ہمسایوں سے امن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔وزیر اعظم نے کشمیر کی کنٹرول لائن پر متعین اقومِ متحدہ کے مشن کو مضبوط، موثر اور وسع کرنے کی تجویز بھی دی ۔تاکہ کنٹرول لائن پر ہندوستان کی جارحیت کے ٹھوس ثبوت بر وقت اقوام متحدہ کے مشن کے لوگ حاصل کر سکیں۔ وزیر اعظم کی ان کوششوں نے اس ملاقات کو ایک یادگار ملاقات بنا دیا ہے۔
دوسری جانب بانکی مون کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے امن کی کوششیں قابلِ تعریف عمل ہیں۔پاکستان اور ہندوستان کے ما بین جلد از جلد مذاکرات کی بحالی ہونی چاہئے۔بانکی مون کے علاوہ وزیر اعظم پاکستان نے ایک امریکی شخصیت بل گیٹس سے بھی ملاقات کی جس میں انہوں نے بل گیٹ کو بھی پاکستانی موقف سے آگاہ کیا۔سری لنکا کے صدر اور جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اور سویڈن کے وزیر اعظم اسٹیفن لوفن ،سینیگال کے صدر اور کوریا کے صدر پارکی تھی سے بھی ملاقاتیں کر کے ان ممالک پر بھی پاکستان کا نقطہ نظر واضح کیا۔
پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ہندوستان کے ورکنگ بائونڈری پر دیوارتعمیر کرنے کے منصوبے کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔انہوں اقوامِ متحدہ سے بھی مطالبہ کیا کہ ہندوستان کے خلاف پاکستانی شواہد کو سرکاری دستاویز کی حیثیت دے دی جائے۔ تاکہ ہندوستان کے کشمیریوں، ورکنگ بائونڈری کے ساتھ ہی لائن آف کنٹرول پر دہشت گردی کے شواہد ساری دنیا کے سامنے آسکیں۔مودی اپنی جارحیت کے مسخ شدہ چہرے کو چھپانے کی وجہ سے عالمی بردری کا برائے راست سامنا کرنے سے کتراتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔
کیونکہ اب نریندر مودی کی بجائے ہندوستان کی وزیرِ خارجہ سشماسوراج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گی۔ جو نریندر مودی کی جارحانہ پالیسیوں پر دنیا سے چہرہ چھپانے کی کھلی دلیل ہے۔دوسری جانب عالمی رہنمائوں خاص طور پر بارک اوبامہ نے خاموشی کے ساتھ دونوں رہنمائوں کی ملاقات کرانے کی کوشش بھی کی کہ پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے اعظم کی ملاقات ہوجائے مگر ہندوستانی قیادت کے روئیے اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس وقت اقوام متحدہ میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ مسئلہِ کشمیر پر او آئی سی کے رابطہ گروپ کا ایک نہایت اہم اجلاس ہوا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے آئے ہوے رابطہ گروپ کے ممالک کا یہ اجلاس الگ سے ہوا جس کی سربراہی ترکی نے کی ۔جس میںرابطہ گروپ کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوے۔ اس اجلاس میں کشمیر کے عوام سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور ان کے مقصد کی بھر پور حمایت کا اعادہ بھی کیا گیا۔
خاص طور پر سعودی عرب اور ترکی نے کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا۔آزاد کشمیر کی جانب سے صدر آزاد کشمیر محمد یعقوب خان نے شرکت کی جبکہ حریت کانفرنس کی قیادت پر ہندوستان نے سفری پابندیاں لگائی ہونے کی وجہ سے اس اجلاس میں شرکت نہ کی ۔ہندوستان کے وزیر عظم اقوامِ متحدہ میں پاکستان کو زیر کرنے کے خواب دیکھتے ہی رہ گئے۔ان کے دل کے ارمان دل میں ہی رہ گئے۔اپنی خفت کو چھپانے کے لئے مودی کا محور اس دورے میں صرف تجارتی سر گرمیاں رہیں۔وہ پاکستان پر کہیں بھی دبائو نہ بڑھا سکے جس کا انہیں شائد ساری زندگی افسوس ہی رہے گا۔
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23hurshid@gmail.com