تحریر : سلطان حسین
ڈاکٹر نے مریض سے کہا ”کیا تکلیف ہے آپ کو ”مریض نے اپنی تکلیف بتاتے ہوئے کہا ”ڈاکٹر صاحب مجھے دل کے دورے پڑتے ہیں ”ڈاکٹر بولے ”تو پھر آپ کسی اور ڈاکٹر کے پاس جائیں ”مریض نے حیرت سے پوچھا”ڈاکٹر صاحب وہ کیوں”ڈاکٹر نے جواب دیا ”اس لیے کہ میری فیس کا سن کر ہی آپ کو دل کا دورہ پڑ جائے گا”اس سے قبل کے بات آگے بڑھائیں ایک اور لطیفہ بھی آپ کے ساتھ شیئر کرنے کو دل چاہتا ہے ۔ہسپتال میں ایک مریض کا آپریشن ہوگیا لیکن مریض پھر بھی ٹھیک نہیں ہوابلکہ اس کا مرض بڑھتا ہی رہا دوہفتوں کے بعد ڈاکٹر نے پھر آپریشن تجویز کردیا اور اس کا پیٹ چاک کر دیا دوسرا آپریشن بھی کامیاب نہ ہوا تو تیسرے آپریشن کے بعد جب ڈاکٹر ٹانکے لگانے لگا مریض سے نہ رہا گیا ڈاکٹر سے کہا ”ڈاکٹر صاحب ٹانکے نہ لگائیں بلکہ زپ یا ٹچ بٹن لگا لیں تا اگلی بار آپ کو آسانی رہے۔
‘قارئین ان لطیفوں پر ڈاکٹروں کے بارے میں ایسے کئی لطیفے ہیںجس میں سے بعض پر ڈاکٹروں کو ضرور اعترض بھی ہوگا لیکن کیا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اس سچ سے انکار کرسکتے ہیں؟ڈاکٹروں کی روز افزوں بڑھتی ہوئی فیسوں ‘ادویات اور لیبارٹریوں میں کمیشن اور ادویات ساز کمپنیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی وجہ سے علاج تو اب غریب آدمی کے دسترس سے ہی باہر ہوتا جارہا ہے اسی لیے وہ سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں بھی ان کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے درجہ چہارم ملازمین سے لے کر ڈاکٹروں تک سب ہی انہیں دھتکاررہے ہوتے ہیں ایسے لگتا ہے جیسے سرکاری ہسپتال بھی ان لوگوں کی جاگیر ہو۔
اس سسٹم کو جب بھی اور جس نے بھی ٹھیک کرنے کی کوشش کی ڈاکٹر ہوں یا درجہ چہارم ملازمین یا پیرامیڈیکس سب اس کے خلاف متحد ہوجاتے ہیںاور ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی پوری قوت لگائی دیتے ہیںگذشتہ کچھ مدت سے صحت کے شعبے میں جب سے اصلاحات کی کوششیں کی جارہی ہیں اسے ناکام بنایا جارہا ہے اب کی بار بھی سندھ ہو یا بلوچستان ‘پنجاب ہو یا خیبر پختونخوا جب بھی ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں انہیں ناکام بنایا دیا جاتا ہے گذشتہ دنوں خیبر پختونخوا میں ڈاکٹروں پر لازمی سروسز ایکٹ نافذ کیا گیا تو ڈاکٹروں نے ہڑتال کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر کسی قانون اور ضابطے کے پابند نہیں وہ ہر قاعدے قانون اور ضابطے سے مبرا ہیںکیوں کے وہ ”فرشتے” ہیں ان پر کوئی دنیاوی قانون لاگو نہیں ہوتاوہ آسمانی مخلوق ہیں وہ کسی ایکٹ کے پابند نہیں (جس طرح فورسزاور پولیس پر یہ ایکٹ نافذ ہے اور اب پی آئی اے پر بھی لاگو ہوگیا ہے۔
ڈاکٹروں کی ہڑتال کے بعد اب خبر یہ ہے کہ ہڑتالی ڈاکٹروں سے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں یہ تو واضح نہیں کہ اندرون خانہ کن شرائط پر مذاکرات کامیاب ہوئے َحکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے یا ڈاکٹر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے تاہم ہڑتا ل کی آڑ میں کچھ مراعات ضرور انہوں نے سمیٹ لیںجس کے بعد ڈاکٹروں نے ہڑتال تو ختم کر دی لیکن کیا ہڑتال ختم ہونے سے اس صوبے اور پشاور کے شہریوں کی مشکلات بھی ختم ہوگئیں؟ ان مریضوں اور لواحقین کی پریشانی کا ازالہ بھی ہوگیا جو اس ہڑتال کے دوران متاثر ہوئے یا انہیں مالی نقصان اٹھانا پڑاوہ مریض جنہوں نے گھروں میں تڑپتے ہوئے جان دیدی کیاان کو دوبارہ زندگی مل جائے گی یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئی بھی نہیں دے گا اور نہ ہی دے سکے گا ڈاکٹروں کا عمل ہو یا حکومت کا انتظامیہ ہو یاسیاسی قائدین ہوںسب جوابدہ ہیں لیکن سب ہی لوگ خود کو اس سے مبرا سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ہر شخص خود کوقاعدے قانون ‘ہر اصول ضابطے اور اخلاقی اقدار سے مبرا سمجھتا ہے۔
جبکہ دوسروں کو اس کیلئے مورد الزام ٹھہراتا ہے خود کو کسی قاعدے قانون کا پابند نہیںجبکہ دوسروں سے اس پر عمل اور اس کی پابندی کی توقع رکھتا ہے۔ دنیا میں دو شعبے ایسے ہیں جن کا سب سے زیادہ احترام کیا جاتا ہے ان میں ایک صحت کا شعبہ اور دوسرا معلمی کا(لیکن ان دونوں شعبوں میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ) ہے صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد لوگوں کو زندگی دینے کی کوشش کرتے ہیں زندگی اور موت کا اختیار تو انسان کے پاس نہیں تاہم بیماری کی صورت میں صحت یابی کا معاملہ انسان کے ہاتھ میں دیدیا گیا ہے اس شعبے میں آنے والی شخصیات کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ انسانیت کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں ان کا کردار اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ وہ نہ تو لالچ میں آتے ہیں اور نہ دھونس اور دھاندلی سے متاثر ہوتے ہیں۔
لیکن ہمارے یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے انسانیت کی علمبرداری کا دعوی کرنے والے ہی انسانیت کی دھجیاں اڑاتے ہیں گذشتہ روز کی ہڑتال سے کچھ مدت قبل انسانیت کے ان علمبرداروں نے ایک ہڑتال کی تھی جس میں ہسپتالوں میں ”نظام صحت کو مفلوج کردیں گے”کے پوسٹر لگادئیے گئے تھے اور اس پر عمل بھی کر کے دکھادیا گیاتھاہسپتالوں سے پورے وارڈ کے وارڈ خالی کرالئے گئے تھے مریضوں کو دھکے دے کر وارڈ سے نکال کر وارڈوں کو تالے لگا دیئے گئے تھے جن وارڈوں میں مریض پڑے رہے وہ سسکتے اور بلکتے رہے انسانیت کی خدمت کے دعوے کرنے والوں نے ان کی خبر تک نہیں لی تھی ہر شعبہ زندگی کی طرح ڈاکٹروں کے بھی یقیناََاپنے خواب ہوں گے اور وہ اس کی تعبیر بھی چاہتے ہوں گے لیکن کیا یہ خواب اور خواہشیں قاعدے قانون اور ضابطے سے مبراہوکر پورے کئے جانے چاہئیںاس کا جواب کون دے گا۔
اس کا کیا جوازہے کہ مریضوں کو وارڈوں سے نکال دیاجائے ‘ان سے بدتمیزی کی جائے اور مریضوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ان کا قصور کیا تھااس عمل کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی ڈاکٹروں کے اس طرح کے کردار کی وجہ سے وہ معاشرے میں تنہا رہ گئے ہیںکسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے نہ ہی وہ ایسے مواقعوں پر ساتھ دیتے ہیں البتہ سیاسی مداری ایسے مواقعوں سے فائدہ ضرور اٹھاتے ہیں جو ہر ایسے موقع پر وہ کرتے ہیں۔اگر ڈاکٹروں نے قاعدے قانون اور ضابطے سے مبرا ہونے کے لیے احتجاج ہی کرناہی تھا تو اس کے بہتر طریقے بھی تھے ایسا ہوتا تو ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی وہ ہمدردیاں بھی حاصل کرلیتے ان کے عمل سے جہاں مریضوں اور ان کے لواحقین کو پریشانی ہوئی وہاں عام آدمی نے بھی اس حوالے سے جو تاثر لیا وہ ان کی اپنی غلطی کی وجہ سے مزید خراب ہوگیا ہے۔
انسانیت اور دکھی انسانیت کی خدمت کے جس شعبہ سے ان کا تعلق ہے اس میں توبڑی بردباری اور تحمل اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے جیسے مغرب میں ہے یا پاکستان کے بعض اداروں میں یہ نظر آرہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں عام آدمی مسائل میں مبتلا اور سرگرداں ہے تو اسے مزید سرگرداں اور پریشان کرنے کی بجائے ان کے مسائل حل کرنے کی سوچ اپنائی جائے افرادی سوچ ہی ہماری تنزلی کا سبب ہے جس کو ہم نظر انداز کر رہے ہیں ہمیں اپنی ذات کے خول سے باہر آناچاہیے کیونکہ ہم بحیثیت قوم اب زوال کے آخری درجے تک پہنچ چکے ہیں۔
اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو دیگر مسلم ممالک کی طرح ہمارا بھی حشر ہوگاجہاں ڈاکٹروں کو اپنی ذات کے خول سے باہر آنا ہوگا وہاں حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ ڈاکٹروں سمیت ہر شعبے زندگی کے لوگوں کواعتماد لے کراپنی ذمہ داریاں پوری کرئے اور ان اہم عناصر کو بھی بے نقاب کرئے جن کی آشیرباد سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے جب تک صورتحال بہتر نہیں ہوگی اس قسم کی ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
تحریر : سلطان حسین