تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
جب یہ تحریر لکھنے بیٹھاتو دیکھا دنیا بھر میں رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن میلادالنبی منایا جا رہا ہے۔ جلسے اور جلوس نکالے جا رہے ہیں، محفلیں سجائی جا رہی ہیں۔ تو دل باغ باغ ہو گیا، ویسے ہی مومن کی علامت ہی یہی ہے کہ آقاکی دنیا میں جلوہ گری کا ذکر ہو تو خوب خوشیاں منائے، پھر ایک خیال بھی ذہین میں آیا کہ ہم مسلمان اب نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ بلکہ نام کے بھی کہاں ہم نے تو اپنے اپنے مسلک، مکتب کو اپنی پہچان بنا لیا ہے ۔حتی کہ مساجد پر بھی مسلک کے نام کی تختی لگا لی ہے۔ دل غم سے بوجھل ہو گیا۔ آج امت مسلمہ مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ ہم کو اس نقصان کا احساس بھی نہیں ہے۔ اسی سبب سے ہم ایک زوال زدہ قوم و امت بن چکے ہیں۔
ہمارے مسلمان بھائی آپس میں خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔ صرف اور صرف مسلک کی بنیاد پر ایک ملک دوسرے مسلمان ملک پر اپنے مسلک کی بنیاد پر جنگ مسلط کیے ہوئے ہیں ۔مسلمان یا مومن تو وہ ہوتے ہیں ،جو آپس میں نرم ہوں ۔اتحاد ،ایمان ،تنظیم ان کا طرہ امتیاز ہوتا ہے ۔ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا گلہ کاٹ رہے ہیں ۔اور جو ہمارا اصل دشمن ہے اس سے دوستی کی ہوئی ہے ۔اللہ کے نبی ۖ اور اللہ کے پیغام کو بھول گئے ہیں ۔مسلمان بھائی بھائی ہیں ۔کافروں کو دوست نہیں بناتے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نے بطور مومن و مسلم اپنی پہچان ختم کر لی ہے اور فرقوں کو اپنی پہچان بنا لی ہے۔
افسوس کہ اللہ کی جماعت اب متحد نہیں رہی اللہ کا فرمان ہے کہ”اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو اللہ کی جماعت (کے لوگ)ہی غالب ہونے والے ہیں۔” اصل سبب ہم نے اسوہ رسول ۖ سے منہ موڑ لیا ہے ۔ اس خرابی کو دورکرنے کے لئے ہمیں آپ کے اس اسوہ مبارکہ کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا چاہئے۔جس بابت اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ رسول ۖ کی زندگی میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہ ۔’بے شک رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ، اس کے لئے کہ جو اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے ۔” (الاحزاب) آج امت میں انتشار کی بڑی وجہ اپنے مسلک کے حق ہونے شدید اصرار ہے۔
اس آگ میں ہم اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ ہم نے صحابہ کرام کو بھی بانٹ لیا ۔قرآن کے تراجم و تفسیر میں اپنے اپنے فرقوں و مسالک کو سامنے رکھ کر فرق ڈال لیا۔اور اپنے بھائیوں کی تذلیل کرنے لگے اور اس بات کو بھول گئے ہیں کہ اسلام دوسروں کی دل آزاری کی اجازت نہیں دیتا۔اللہ کے اس فرمان کو ہم بھول گئے کہ ”اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ(ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے، وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے۔”
ربیع الاول کے اس مبارک ماہ میں آپ کے پیغام رسالت کو سمجھنا اور سیرت طیبہ کو اپنانا ہی میلاد النبی ہے، آپ ۖ سے اصل محبت ہے ۔ آج کی سب سے بڑی سچائی اور حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں (القرآن) اور ہم رسول رحمت کی تعلیمات پر عمل کریں اور ان کو عوام تک پہنچائیں۔
آپ ۖ سے حقیقی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ ۖ کی سیرت طیبہ کو زندگی کا راہبر بنایا جائے ۔ سیرت کو اپنانے کاذریعہ بنایا جائے ۔ہمیں اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط بنانا چاہئے ۔ اور پوری زندگی کو سیرت اور اسوہ حسنہ کی روشنی میں گزارنے کا عہد اور جذبہ پیدا کرنا چاہئے ۔ہماری زندگی کا مقصد کیا ہو ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنا۔اس کے لیے جد و جہد کرنا ۔پہلے خود پر اسلام نافذکرنا ۔پھر دوسروں کو دعوت دینا ۔دنیا میں ہر عظیم مقصدتک پہنچنے کے لیے قربانیا ں دینا ہی پڑتی ہیں، مقصد کا حصول جدوجہد کے نتیجے ہی میں ممکن ہوتا ہے ۔اس مقصد کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن پاک میں تین مرتبہ ایک ہی انداز اور یکساں الفاظ میں اسے دہرایا گیا ہے ۔”وہی (اللہ) ہے ،جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین پر غالب کر دے۔
اس راہ میں مشکلات تو آتی ہیں ۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کے مطابق مکہ اور اس کے گرد ونواح میں دعوت دین کا کام شروع کیا تو آپ کی مخالفت میں قریش کے تمام سردار اٹھ کھڑے ہوئے ۔طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں ۔ہجرت کرنا پڑی ۔ فتح مکہ کے وقت حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اس گھاٹی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ،آپ ۖنے فرمایا کہ اے جابر! تمھیں معلوم ہے کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟ جب انھوں نے لاعلمی ظاہر کی تو آپ ۖ نے فرمایا : ”یہ شعب ابی طالب ہے ، جہاں ہم لوگوں کو تین سال تک مقید رکھا گیا۔ ہمارے بچے بھوک سے بلبلاتے رہے ، ماؤں کی چھاتیوں میں دودھ تک خشک ہوگئے تھے اور ہم لوگ درختوں کے پتے اور چھال کھانے پر مجبور کردیے گئے تھے۔
آج امت کے ہر فرد کوشدید ضرورت ہے کہ وہ سیرت رسول ۖ کا مطالعہ اس نقط نظر سے کرے کہ موجودہ حالات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے کیا درس فراہم کرتی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے اگر تم مومن ہو تو کامیاب ہو جائوگے ۔یہا ں میں پھر وہی بات دوبارہ کرنا چاہتا ہوں، شاید کہ اتر جائے کسی دل میں میری بات۔ ہم کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا چاہئے اور تفرقے میں نہیں پڑنا چاہئے ۔یہ تفرقہ ہی ہماری ناکامی اور زوال کا سبب ہے ۔قرآن کا حکم ہے ”دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال