تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی
انسان نے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی طرف زقند بھری ہے۔ بحر و برمیں نت نئے اکانات، پہلوئوں اور سمتوں کی تلاش و جستجو کے ساتھ آسامن کی موجودات پر بھی کمندیں ڈال رہے ہیں اور نئی بازیافتوں سے دل و دماغ کو منور کر رہے ہیں۔ زمین کے اندر پائے جانے والے بیش بہا خزانوں کی تلاش کا کام برسہا برس میں بھی مکمل نہیں ہو سکا ہے پھر بھی آسمان کو مسخر کرنے کا جذبہ اور جنون فزوں تر ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیم اور تحقیقی و جستجو کے میدان میں ترقی اور پیش رفت کے ساتھ اس زمین کے باسیوں کے طرز، بود و باش اور معیار زندگی میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ رہائشی عمارتوں اور دفاتر کے ساتھ ساتھ لباس اور پہناوے میں بھی زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہے گفتگو کا معیار بھی پہلے سے بہتر ہوا ہے۔ علاج معالجے کی جدید ترین سہولتوں کی وجہ سے بہت سے امراض پر قابو پا لیا گیا ہے۔ مگر یہ کیا ہماری قوم کی ترقی وہیں کی وہیں رُکی ہوئی ہے جہاں ہم سب ابتدا میں تھے۔ اس ترقی کو گرہن کیوں لگا ہوا ہے، ملک اور عوام کے ساتھ ایسا کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے جس سے ان کی ترقی پر قدغن لگ چکا ہے۔ ٦٨ سالوں بعد بھی ہماری قوم نے ترقی کا زینہ کیوں طے نہیں کیا یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ہمارے مختلف ادوار میں رہنے والے حکمران ہی دے سکتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ ان کی سرکار غریبوں کی سرکار ہوگی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد غریبوں کا جینا مشکل ہوگیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میںاضافہ سوائے دس فیصد کے اور کچھ نہیں؟ غریبوں کا روزی کمانا مشکل تر ہے، نوکریاں دستیاب نہیں، انڈسٹریاں تباہ حال ہیں، تیل کی قیمتیں تو کم ہوگئیں مگر باقی اشیاء کی قیمتیں وہیں کی وہیں ہیں، جب تیل کے دام میں اضافہ ہوتا ہے تو بنیادی چیزوں کے ریٹ بھی بڑھ جاتے ہیں مگر جب کمی ہوتی ہے تو یہ تمام ریٹ وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔اس پر کوئی بحث نہیں کرتا، اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا، کیا یہی غریبوں کی سرکار کا یہی مطلب ہے کہ ان کے ساتھ ظلم روا رکھا جائے ، ان سے جینے کا حق چھین لیا جائے اور غریبی کو ختم کرنے کے بجائے غریبوں کو ہی ختم کرنے کے دَر پہ رہاجائے۔
صحنِ غربت میں قضا دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر۔
غربت اور بے روزگاری ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اگر اس ملک کا کوئی شخص پڑھا لکھا ہے تو اس کو نوکری نہیں ملتی ، کیونکہ اس کے پاس سفارش نہیں ہوتی، پھر تجربہ مانگا جاتا ہے ، نوکری ملے گی ہی نہیں تو تجربہ کہاں سے آئے گا۔ہمارے ملک میں اگر روزگار کے مواقع میسر ہو جائیں اور نوجوانوں کو نوکریاں ملنے لگ جائیں تو غریب کا بھلا ہوتا ہے۔ مگر یہاں ترقی صرف امیروں کے حصے میں ہوتا ہے۔ سفارش بھی انہی کے پاس ہے، اُن سے تجربہ نہیں مانگا جاتا کیونکہ ان کے پاس سفارش جیسا زہر موجود ہے۔اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدگی دکھائے تو ہمارا ملک ترقی کے زینے طے کرنے میں پیچھے کیوں رہتا۔
سچ ہی کہا ہے کسی نے طاقت کی شکل کوئی بھی ہو جس کو مل جاتی ہے وہ زمین چھوڑ دیتا ہے۔ آج کل ہمارے ملک میں بھی ایک طرف اقتدار کی طاقت سے حکمران سرابور ہے تو دوسری طرف عوامی طاقت سے مختلف النوع سیاسی جماعتیں۔ یعنی کے سب ہی طاقت کے نشے میں چھور ہیں اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے یہ لوگ تہذیب کا دامن چھوڑتے جا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ ہو یا سیاست دونوں کے درمیان چاہے کتنی ہی شدید مخالفت کیوں نہ ہو، چاہے سیاسی دشمنی ہی کیوں نہ ہو لیکن انہیں زبان استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ کوئی بھی مہذب معاشرہ زبان کی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتا ہے، ہونا تو یہ چاہیئے کہ حکومت اپنے معیار کو بلند رکھتے ہوئے آگے کا معاملہ حل کرے، لیکن یہ بھی ایک کڑوی سچائی ہے کہ ان کے لوگ ایسا نہیں کریں گے، لیکن وہ اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ اپنی حکومت کے وزیروں اور ممبران پارلیمنٹ کو تہذیب کے دائرے میں رہنے کی سختی سے ہدایت کریں حالانکہ ممبران کو بولتے وقت احتیاط برتنے کی تلقین ہوتی ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔
اختلافِ رائے رکھنا جمہوریت کی خوبصورتی ہے ، مگر اس کا مقصد ملک کی ترقی اور لوگوں کی بہتری ہونی چاہیئے۔ ہمارے نظام نے ہمیں بہت سارے پلیٹ فارم فراہم کر رکھے ہیں جن پر عمل کرکے ہم سب اپنے وطن کو ترقی کے مراحل طے کراتے ہوئے ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں، کاش کہ کوئی لیڈر اس پر عمل کرتے ہوئے ملک کے عوام کی داد رسی کرے۔ منصوبے بنائے جاتے ہیں مگر اس پر شفاف طریقے سے عمل در آمد نہیں ہوتا۔ مثالی جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کا مظاہرہ کرنا سب کا فرض ہے۔
اچھی گفتگو یا بات کرنا بھی ایک آرٹ یعنی فن ہے۔ ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں۔ وہی لوگ اس فن میں ماہر ہوتے ہیں جن کے دل میں خوفِ خدا ہوتا ہے ۔اچھی بات اور گفتگو کرنے والوں کی ہر جگہ تعظیم ہوتی ہے۔اچھی گفتگو سے ہمارے معاشرے میں امن و امان اور خوشیوں و مسرتوں کے گلاب مہکتے رہتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے ، سوسائٹی اور ملک میں بے سروپا باتیں کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ ان میں خواندہ اور ناخواندہ تمام قسم کے لوگ شامل ہیں۔ جس کے باعث ہمارے ملک کے اتحاد اور سالمیت کو زبردست خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایسے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس قسم کے لوگوں پر نظر رکھی جائے تاکہ ملک کے تمام باشندوں کو امن، چین اور سکون کے ساتھ زندگی گزارنے میں کوئی دشواری نہ ہو ۔ اور تمام ہی لوگ آپس میں شیر و شکر کی طرح مل جل کر ملک کی ترقی کے لئے کام کر سکیں۔
پڑوسی ملک میں ہی دیکھ لیں جب ملک بنا تو کتنے صوبے تھے اور آج کتنے ہیں؟ جمہوریت ہم سے بہتر نظر آتا ہے، خیر! اس سے ہمیں سروکار نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ خود کو کام کا بنائو، کام کرو، حکمرانی اور ملک کی خدمت کا سلیقہ سیکھو، خود کو آئیڈیل اور نمونہ بنائو، لڑائی سے ملک نہیں سدھرے گا ، ملک کا کیا حال ہے؟ تمہیں جو ذریں موقع ملا ہے اسے غنیمت جانو، کچھ کام کر گزرو، صرف باتیں نہ بنائو، جس سے ملک کا بھی بھلا ہو، عوام کا بھی بھلا ہو، اور تمہاری بھی عزت بڑھے اور ملک کے لوگ تمہیں عزت کے ساتھ یاد کریں۔
کامیابی تو کام سے ہوگی
نہ کہ حسنِ کلام سے ہوگی۔
تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی