تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی
آزادی اظہار کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی توہین مغربی ذرائع ابلاغ کا من پسند مشغلہ بنتا جا رہا ہے اور گستاخانہ مواد شائع کرکے مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کے نشریاتی ادارے گھنائونی سازش کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں نکالنا چاہئے کہ آدمی کسی بھی مذہب، مکتب یا مسلک کی دل آزاری کا مرتکب ہو۔ دوسری طرف حکمرانوں کا بھی یہ وطیرہ ہونا چاہیئے کہ اس کو مکمل چھوٹ نہ دیا جائے۔ ویسے تو اظہارِ رائے کی آزادی اس لئے ہوتی ہے تاکہ آدمی کو لگے کہ فلاں چیز غلط ہو رہی ہے تو اس کے خلاف اس ملک کے آئین اور قانون کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے وہ اپنی بات رکھ سکے اور جو اس کے نزدیک صحیح اور غلط ہو وہ کہہ سکے، لیکن اگر اس کا مطلب یہ نکال لیا جائے کہ آدمی کے منہ میں جو آئے بول دے، اس کا لم جو چاہے وہ لکھ دے اور عمل سے جو چاہے وہ کرکے دکھا دے تو یہ بالکل غلط اور بے شرمی ہے۔
علم انسانی شخصیت کی غذا ہے، جس طرح جسم مادی غذا کے بغیر ناکارہ ہو جاتا ہے، اسی طرح انسانی شخصیت علم کے بغیر ناقص اور ادھوری ہو جاتی ہے اور ناقص شخصیت دنیا میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ علم سیکھ کر اور پڑھ کر مغربی لوگ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس طرح کا مواد شائع کر رہے ہیں کہ جس سے مسلمانوں کی جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ انہیں ایسا کرنے سے پہلے سمجھ بوجھ سے کام لینا چاہیئے۔ ان لوگوں سے کسی قسم کے سنجیدہ مکالمہ کی توقع کرنا فضول ہے۔ یہ لوگ اظہارِ رائے کی آزادی کے قوانین کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں جس کی لپیٹ میں مسلمان ، عیسائی، اور دوسرے لوگ بھی زد میں آتے ہیں اور سب کو تضحیک و فضیحت، سب و شتم میں برابر کا حصہ ملتا ہوگا۔ حقیقت کو اانکھیں کھول کر دیکھئے پھر کچھ تحریر کیجئے۔ نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخی کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ اور یہی ہوا کہ پوری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جہاں جہاں مسلمان موجود ہیں وہاں وہاں مظاہروںکا سلسلہ جاری ہے۔ اگر ان افراد کی آواز کو ابانے یا سینسر کرنے کی بات نہیں کی گئی تو یہ آزادی رائے کا مغربی سلسلہ دراز ہو سکتا ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تمام آوازوں کو قانون اور سزا کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی اس طرح کی گستاخ آمیز مواد شائع کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
پیار محبت بغض عداوت کے بھی طور طریقے ہیں
یہ تو کوئی بات نہیں جو منہ میں آیا بول دیا
یوں اگر کوئی بھی بندہ شخص کچھ بھی غلط کر رہا ہے تو اس کو سزا دینے کا اختیار تو ہمارے پاس نہیں مگر سزا دلانے کا ہمارا اختیار ضرور ہے۔ ہم سب کو چاہیئے کہ اس موقع پر ہم ایسے تمام مجرم کو قانون کے دائرے میں لائیں اور قانون کے ترازو پر اس کو تولیں۔ یقینا جن لوگوں نے ایسی توہین آمیز حرکت کی ہے ان کو سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے احتجاج اور مظاہروں سے ہمیں دنیا بھر میں یہ پیغام پہنچا دینا چاہیئے کہ ہم گستاخِ رسول کو برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ ناقابلِ معافی جرم ہے، اُس ملک کے حکمرانوں کو اس بات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انہیں گرفتار کیا جانا چاہیئے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی گستاخی کرنے کی جسارت نہ کرے۔ویسے بھی دنیا بھر کے سارے مسلمانوں کا یہ عقیدہ بھی بہت مضبوط ہے کہ گستاخی کرنے والے کو اللہ ربّ العزت ہی بہتر سزا دے سکتے ہیں۔
انٹر نیٹ کے ایک سائیٹ کے مطابق ایسے موقع پر جبکہ پوری دنیا میں مسلمان توہین آمیز خاکوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جنوبی افریقہ کے اخبار میل اینڈ گارڈین نے بھی کارٹونسٹ زی پیرو کا توہین آمیز خالہ شائع کر دیا ہے جس میں نبی آخر الزماں کو اس بات پر افسوس کرتے دکھایا گیا ہے کہ ان کے پیرو کاروں میں مزاح کی حِس نہیں (واللہ اعلم) علامہ سید ریاض حسین شاہ کے مطابق گستاخ رسول کی تفصیلات: رسول زمین پر اللہ کے نائب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی کا نفوذ نبی اور رسول ہی کرتے ہیں۔ رسولوں کی تعظیم اور تکریم دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی تعظیم اور تکریم ہوتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ رسولوں کی تکریم لازم کی گئی بلکہ رسولوں سے منسوب جملہ اشیاء کی تعظیم بھی ضروری قرار دی گئی ہے۔ انہوں نے قرآنِ کریم کی آیت کا حوالہ بھی دیا ہے جس کے مطابق ”سو جو ان پر ایمان لایا اور ان کی خوب تعظیم کی اور ان کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو ان کے ساتھ نازل ہوا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔”(الاعراف: ١٥٧)
موصوف مزید لکھتے ہیں کہ اللہ نے قرآن مجید میں ایمان کی ایک علامت یہ بیان فرمائی کہ مومن ایسے لوگوں سے قلبی روابط اور تعلقات رکھنے کو جائز نہیں سمجھتے جو حضور کے گستاخ ہوں اور ان کی مخالفت کرتے ہوں۔ سورة مجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” آپ نہیں پائیں گے کوئی قوم جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہو کہ پیار کریں ایسے لوگوں سے جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہوں اگرچہ وہ لوگ ان کے آبائو اجداد یا آل اولاد یا بھائی برادر یا کنبے قبیلے سے ہوں، اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کو راسخ کر دیا ہے اور اپنی خصوصی توجہ سے ان کی مدد فرمائی ہے اور اللہ انہیں باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہوگی وہ ہمیشہ انہی میں رہیں گے، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی، یہی لوگ اللہ کی جماعت ہیں، سنتا ہے جو اللہ کی جماعت ہے وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں۔” (المجادلہ٢٢)
تاریخ سے پڑھو کہ ہے گُستاخ کون کون ؟
اُس اُس کا نام سارے جہاں کو پتا تو ہو
کُتے کی موت اُس کا مقدر ہے با خدا
گُستاخِ مصطفےٰ کی اب اتنی سزا تو ہو
اور ہم مسلمان تو یہ کہتے بھی نہیں تھکتے تو پھر گستاخی پر کیسے خاموش رہ سکتے ہیں:
بس ہے یہی آسرا تم پہ کروڑوں درود
یا رسول اللہ یا حبیب اللہ
سینہ کہ ہے داغ داغ کہہ دو کرے باغ باغ
طیبہ سے آکے صبا تم پہ کروڑوں درود
یا رسول اللہ یا حبیب اللہ
تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی