تحریر: شاہ فیصل نعیم
اس چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا ہے جب جرمنی میں تباہی و بربادی کے بادل چھائے ہوئے تھے، انسانیت سوز واقعات اور آہ و بکا کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا تھا،ج رمنی دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔۔۔! پھر ایک وقت آیا جب آپس کی رقابتیں محبتوں میں بدل گئیں، جذبہِ حب الوطنی امڈ آیا اور برلن وال (Berlin Wall) ہٹا دی گئی۔ آج جرمنی اپنی محنت کے بل بوتے صنعتی، تعلیمی، سیاسی، فکری ا ور معاشی لحاظ سے اُس منتہائے کمال کو چھو چکا ہے جس کو چُھونا تو دور کی بات ہمارے جیسے ممالک کے لیے اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔
ویسے تو جرمنی صنعتی لحاظ سے پوری دنیا میں مشہور ہے لیکن یہاں موجود وادیاں بھی سیاحوں کے لیے ایک خاص کشش رکھتی ہیں۔ ہم جب جرمنی گئے تو ہمارے دورے میں وادیِ رائن بھی شامل تھی ہم بس کے ذریعے وادیِ رائن پہنچے ۔دریائے رائن کسی ناگن کے طرح بل کھاتا پہاڑوں میں سے گزرتاہے ،یہاںپھیلاہوا قدرتی حسن دیکھنے والوں کے لیے اپنے اندر ایک خاص جاذبیت رکھتا ہے اور پہاڑوں پر تاحدِ نظر انگور کی کاشت کرکے اس ڈھلوان زمین سے بھی استفادہ کیا جا رہا ہے ۔جرمنی کوئی اتنا بڑا ملک نہیں یہا ں موسمی کیفیات بھی کچھ مختلف ہیں لیکن اس کے باوجود جرمنی اتنا کچھ پیدا کر لیتا ہے کہ خود بھی کھاتا ہے اور مختلف ممالک کو برآمد کرکے زرِمبادلہ بھی کماتا ہے۔
ہم کافی دیر وادیِ رائن گھومتے رہے لیکن جب واپس لوٹے تو جو دیکھنے کو ملا وہ بہت عجیب تھا ہما را ڈرائیور ایک پیکٹ لئیے گاڑی کے باہر کھڑا تھا ہمیںتجسس تھا کہ پتا نہیں اس میں کیا ہے اتنی دیر میں وہ آگے بڑااور ہمارے ساتھ موجو د آفیشیلز کو پیکٹ تھما تے ہوئے بولا:”جناب!آپ کے یہ پائونڈز اِدھر گر گئے تھے یہ لیں اپنی امانت”۔ ایک انگریز سے ایسی عادات کا اظہار جو کبھی مسلمانوں کا معیارِزندگی ہوا کرتی تھیں ہمارے حیران ہونے کے لیے کافی تھا۔ہم نے اس کے کردار کو سراہا اوراسے دادِتحسن دی اس کا یہ فعل نا صرف اس کی ذات بلکہ اس کے ملک کی اقدار کو بھی آشکار کر رہا تھا ۔یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا جو مجھے جرمنی میں دیکھنے کو ملا ،ایک واقعہ مجھے پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملا یاد تو مجھے دونوں ہی ہیں لیکن ان کے یاد رکھنے کی نوعیت جدا جدا ہے۔
جب میں میٹرک میں تھا تو ہماری کلاس میں یہ طے تھا کہ جو طالب علم لیٹ آئے گا وہ جرمانہ ادا کرے گا اور اس طرح جمع شد ہ رقم کو سکول اور دوسرے بہتری کے کاموں کے لیے تصرف میں لایا جائے گا۔اس عمل سے طلباء بھی وقت کے پابند بن گئے اور دوسال میں جمع کرتے کرتے ہمارے پاس جو رقم بنی اس میں استادِ محترم اور طلبا ء نے کچھ مزید پیسے ڈالے اور طے یہ پایا کے سکول کے قریب جو مسجد ہے وہاں پانی کا انتظام اتنا اچھا نہیں ہے اور طلباء کی کثیر تعداد کے باعث نماز کے اوقات میں اکثر دقت پیش آتی ہے ایک تو اس مشکل کو حل کیا جائے اور دوسرا جو پیسے بچ جائیں ان سے مسجد میں ٹالز لگوائی جائیں۔اس سوچ کے پیشِ نظر کے اللہ کا گھر ہے یہاں اچھی چیز لگوانی چاہیے ہم نے اچھے والی ٹوٹیاں لگوائیں اور اس طرح مسجد میں پانی کا مسئلہ حل ہو گیا۔لیکن کچھ دنوں بعد دیکھا کے چند کے علاوہ باقی سب غائب ہیں پتا نہیں کسی اللہ کے بندے کو مسجد میں فراہم کردہ یہ سہولت اچھی نا لگی ہو اور وہ اتار کے لے گیاجو باقی بچ گئیں ہم نے ان کو زنجیر کے ساتھ باندھ دیا کہ کہیں یہ بھی نا غائب ہو جائیں۔
ایک وہ جرمنی والا واقعہ تھا جہا ں ہمیں گمشدہ پیسے بھی واپس مل گئے اور دوسرا یہ ہے جہاں اللہ کے گھر کو بھی معا فی نہیں ہے۔ ہم تو نیک نہیں ہیں لیکن اللہ کے کچھ نیک بندے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچانے کے لیے گرمیوں میں مختلف جگہوں پر واٹرکولرز لگواتے ہیں تاکہ بندگانِ خدا کڑکتی دھوپ میں سینے میں لگی پیاس کی آگ کو بجھا سکیںاور آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان کے ساتھ پلاسٹک کے گلاس رکھے جاتے ہیں اور ان کو بھی زنجیر سے باندھا جاتا ہے ،مسجدوںمیں چندے کے لیے رکھے گئے ڈبوں کو بھی زنجیر سے باندھا جاتا ہے بعدمساجد میں میں نے دیکھا ہے کہ ہاتھ دھونے کے لیے رکھے گئے صابن کو بھی کپڑے کی تھیلی میں باندھ کر رکھا جاتا ہے تاکہ کوئی لے نا جائے ۔
قارئین! ہم مسلمان ہیں یہ ہمارا آج کا معیارِ زندگی ہے ہم یورپ کی ہر بُری عادت کو اپنانا خود پر لازم سمجھتے ہیں ہم اس گندی مکھی کی طرح ہیں جو صاف جگہ چھوڑ کر صرف اور صرف گندگی پسند کرتی ہے۔قارئین! وہ قوم جس کے واٹر کولرز پررکھے ہوئے گلاس،مساجد میں لگی ہوئی ٹوٹیاں ، وہاں رکھا گیا صابن اور حتٰی کہ بیت الخلا میں پڑے ہوئے لوٹے تک محفوظ نا ہوں ،وہ قوم جس کے اعمال اس حد تک گھٹیا ہوں جس کا معیارِ زندگی اس حد تک گِر چکا ہووہ کیسے ترقی کرسکتی ہے ۔۔۔؟؟وہ کیسے اپنے کردار سے دنیا کو متاثر کر سکتی ہے ۔۔۔؟؟ایسی ہی بد اعمالیوں کی ایک اشکوں سے لکھنے والی داستان ہے۔
تحریر: شاہ فیصل نعیم