تحریر : ثانیہ منیر
ایک صاحب جو بہت پرہیزگار اور عبادت گزار ہیں، لمبی لمبی نمازیں پڑھتے ہیں تمام دینی تقاضے پورے کرتے ہیں لیکن مخلوقِ خدا کی طرف سے چشم پوشی کا شکار ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس ایک صاحب جو نہ تو اتنے عبادت گزار ہیں نہ ہی دینی تقاضوں کو پورا کرنے والے ہیں لیکن پھر بھی ان کی توجہ کا منبع مخلوقِ خدا ہے، اس کی مدد ہے، اس کی تکالیف کا مداوا ہے۔
تو آپ کے نزدیک کون ذیادہ خدا کے حکم اور اپنے مقصدِ تخلیق کے نزدیک ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناَ وہی صاحب نا جو بہت عبادت گزار ہیں، مجھے پورا یقین تھا کہ اکثریت کی رائے یہی ہو گی۔
اصل حقیقت تو کچھ اور ہے عزیزِ محترم!! اس سال رمضان کریم کی نشریات دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ایک جگہ مولانا صاحب سے سوال کیا گیا کہ ﷲ کے نزدیک عبادت گزار زیادہ اہم ہے یا دردِدل رکھنے والا تو مولانا صاحب نےبڑا خوبصورت جواب دیا کہ دردِدل رکھنے والا کیونکہ وہ اس شعر کی عملی تفسیر ہے:
؎ دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کم نہ تھے کروبیاں
تو گویا انسان کی تخلیق کا مقصد دردِ دل ہے یعنی باہمی ہمدردی ، رواداری، بھائی چارہ اور اخوت و محبت ہے جس کے بغیر انسان اپنے انسان ہونے کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ دردِ دل ہی تووہ اکائی ہے جسے عبادت کا درجہ دہا گیا ہے کیونکہ مخلوقِ خدا کی خدمت عبادت ہی تو ہے۔ یہی تو وہ ذریعہ ہے جو انسان کو اپنے رب سے ملاتا ہے اور اسکے قرب اور رضامندی کا حقدار ٹھراتا ہے۔
آج ہم اس دردِ دل کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں جو معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہا ہے۔ آج ہم اپنا بھرم رکھنے کے بے روح نمازیں تو پڑھتے ہیں جو لوگوں کو تو متاثر کرتی ہیں لیکن ہمارے نامہٓ اعمال میں نیکیوں کا خاطر خواہ اضافہ نہیں کرتیں۔ آج ہم کسی کو مشورہ دیتے وقت، کسی کی مدد کرتے وقت بھی اپنا مفاد نظر میں رکھتے ہیں تو سوچیئے ہم کس قدر خود غرض ہو چکے ہیں۔
اس حوالے سے ایک قول پڑھا تھا کہ ‘‘ اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو اوروں کے لیے زندہ رہو’’۔آج ہم زندہ تو ہیں پر صرف اپنے لیے، اپنے مفاد کے لیے۔ آج ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ سماجی رابطوں کی سائیٹس پر پوری دنیا کو اپنے معمول سے آگاہ کرنے کا وقت ہے پر ساتھ رہتے ہمسایہ کی خبرگیری کا احساس نہیں۔
ہمیں پوری دنیا کی خبر ہے کہ کیا ‘‘اِن’’ ہے اور کیا ‘‘آوٹ’’ لیکن خبر نہیں تو اپنے قریبی لوگوں کی کہ وہ کس حال میں ہیں۔ یہ بے حسی نہیں تو کیا ہے؟ کیا یہ ہماری تخلیق کا مقصد ہے؟؟ ہمیں کب احساس ہو گا کہ ہم کیوں اس دنیا میں آئے تب جب ہم اوروں کی طرح نیست و نابود ہو جائیں گے۔
آخر میں صرف اتنا کہوں کی کہ آج کا اشرف المخلوقات حیوانات سے بھی گیا گزرا ہے اور اپنی معراج کھو بیٹھا ہے۔ خدا راہ ! جاگ جائیے۔ اپنے مقصدِ تخلیق کو پا لیجئیے کہیں زیادہ دیر نا ہو جائے۔
؎ عصرِ حاضر نے دیئے انسان کو پتھر کے دل
کیا قیامت ہے دل دردِ آشنا کوئی نہیں
تحریر : ثانیہ منیر