الاسکا: ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ اس سال قطب شمالی کا درجہ حرارت وہاں پر سردیوں کے اوسط درجہ حرارت سے بھی 36 ڈگری فارن ہائیٹ (20 ڈگری سینٹی گریڈ) زیادہ ہے جس پر انہیں شدید تشویش ہے۔
اس وقت قطب شمالی (آرکٹک) پر آدھی رات کا وقت ہے، سردیوں کا موسم ہے کیونکہ سورج افق سے نیچے ہے۔ ہر سال یہ کیفیت مارچ تک جاری رہتی ہے اور پھر اگلے 6 ماہ کےلئے افق پر سورج نکل آتا ہے لیکن اس سال آرکٹک پر قائم امریکا، کینیڈا اور روس کے موسمیاتی اسٹیشنوں میں جودرجہ حرارت ریکارڈ کیا جارہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ اس سال موسمِ سرما میں قطب شمالی کا درجہ حرارت اس کے اوسط سے 36 درجہ فارن ہائیٹ (20 ڈگری سینٹی گریڈ) تک زیادہ ہے۔
اگرچہ یہ اب بھی نقطہ انجماد سے بہت کم ہے لیکن پھر بھی درجہ حرارت میں اوسط سے اتنے زیادہ اضافے کے نتیجے میں وہاں نئی برف بننے کا عمل خاصا سست ہے جس کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ 2012 میں نئی برف بننے کی کم ترین شرح سے بھی کم ہے۔
یہ عالمی ماحول کےلئے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ قطب شمالی پر سردیوں کے دوران نئی برف کی وافر مقدار جمتی ہے جب کہ وہاں گرمیوں کے موسم میں بڑے پیمانے پر برف پگھلتی ہے جس سے بننے والا پانی ساری دنیا کے سمندروں میں پہنچتا ہے اور نہ صرف سمندر بلکہ زمین کے ماحول کو بھی متوازن رکھنے میں بڑی مدد کرتا ہے۔ کم برف بننے کا نتیجہ آئندہ برس قطب شمالی پر برف میں مزید کمی کی صورت میں ظاہر ہوگا، جس پر وہاں تحقیق کرنے والے ماہرین نے بھی شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے چند برسوں سے دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور ہر نیا سال، پچھلے سال کے مقابلے میں گرم تر ثابت ہورہا ہے۔ قطب شمالی کے حالات بھی اسی طرف اشارہ کررہے ہیں کیونکہ یہ لگاتار دوسرا سال ہے جب وہاں سردیوں کا درجہ حرارت سابقہ اوسط سے کہیں زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، قطبی روس کے بعض اسٹیشنوں پر اس سال سردیوں کا درجہ حرارت اوسط سے 12.6 درجہ فارن ہائیٹ (7 درجہ سینٹی گریڈ) زیادہ ریکارڈ کیا جاچکا ہے جب کہ روس، الاسکا اور شمال مغربی کینیڈا کے وہ مقامات جو قطب شمالی سے بالکل ملے ہوئے ہیں، وہاں بھی سردیوں کا درجہ حرارت سابقہ اوسط سے 5.4 درجہ فارن ہائیٹ (3 درجہ سینٹی گریڈ) زیادہ ہے۔ چند اسٹیشنوں پر صورتِ حال انتہائی خطرناک ہے کیونکہ وہاں ریکارڈ کیا گیا درجہ حرارت سردیوں کے اوسط سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ تک زیادہ ہے۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ صرف 2016 ہی ایک اور گرم ترین سال نہیں ہوگا بلکہ 2017 اپنی گرمی میں موجودہ سال کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے اس لئے ہمیں کسی بھی ماحولیاتی انہونی کے لئے تیار رہنا چاہیئے کیونکہ سیارہ زمین ایک بھرپور نظام کی طرح کام کرتا ہے جس کا ہر ایک حصہ کسی نہ کسی صورت دوسرے حصوں سے مربوط ہے؛ اور ایک حصے میں ہونے والی تبدیلی دوسرے تمام حصوں پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔
یعنی قطب شمالی پر درجہ حرارت میں اضافہ وہاں موجود ریچھوں، مچھلیوں اور دوسرے جانوروں کی آبادیوں کو تو متاثر کرے گاہی لیکن اس کے اثرات ساری دنیا پر بھی مرتب ہوں گے۔ لیکن یہ کیسے اور کس حد تک ہوگا؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔