اقبال کے شہر سیالکوٹ کی کل آبادی ساڑھے چھ لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور الحمدلله تقریباً اکثریت کا تعلق مذہب اسلام سے ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ دنیا بھر کے مسلمان نہایت عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔ اس ماہ اپنی آخرت سنوارنے کے لیے خدا تعالیٰ کے سامنے جھک کر زیادہ سے زیادہ نیکیوں کو سمیٹا جاتا ہے۔
شائد اسی لیے جمعرات کی شب کم از کم پانچ سو افراد نے ایک اقلیتی برادری کی تاریخی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا۔
تفصیلات کے مطابق ستر سالوں سے صبر کا مظاہرہ کرنے والے پانچ سو مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ جمعرات کی شب لبریز ہوگیا۔ جس کے بعد وہ ہاتھوں میں ہتھوڑے پکڑے اقلیتی عبادت گاہ پر چڑھ دوڑے اور اپنے جذبہ ایمانی کے ساتھ تھوڑ پھوڑ شروع کردی۔ نیت صاف تھی اس لیے عمارت میں موجود میناروں کو گرانے میں کامیاب ہوگئے۔
اس اقلیتی گروہ سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس عمل پر افسوس اور غم کا اظہار کیا۔ کیونکہ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی راستہ بھی موجود نہیں تھا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر قرۃ العین مری کی جانب سے سینیٹ میں اس عمل پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ جناح کا نظریہ نہیں تھا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اس اقلیتی گروہ کے لیے ایک دائرہ کار مخصوص کیا گیا ہے۔ اس دائرہ کار کے مطابق یہ اقلیتی گروہ مسلمانوں کے طرز پر اپنی عبادت گاہ میں میناروں کی تعمیر نہیں کرسکتا کیونکہ اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
اس سو سالہ پرانی تاریخی عبادت گاہ پر مینار کی تعمیر قیام پاکستان سے پہلے کی گئی تھی۔ کاش اس گروہ کو مستقبل کے حالات کا علم ہوتا تو وہ اپنی عبادت گاہ کو موجودہ آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے تعمیر کرتے۔
اس نیک عمل کو کرنے کے بعد جشن مناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رکن جناب حافظ حامد رضا صاحب کی جانب سے ایک ویڈیو پیغام دیا گیا۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ اس عبادت گاہ کے میناروں کو گرا دیا گیا ہے اور ساتھ میں سب سے گزارش کرتا ہوں کہ ابھی جو دیگر عبادت گاہوں پر مینار موجود ہیں۔ ان میناروں کو بھی فلفور گرایا جائے۔
نہ تیرا خدا کوئی اور ہے، نہ مرا خدا کوئی اور ہے۔
یہ جو قسمتیں ہیں جدا جدا، یہ معاملہ کوئی اور ہے