اگرچہ لیڈیز فرسٹ والا مقولہ الٹ ہوگیا ہے۔ بہرحال حکومت کی جانب سے مردوں کی جان کے بعد خواتین کی زندگیوں کی فکرمندی بھی قابل ستائش ہے۔ انسانی زندگی کی بقا و تحفظ کے اس اقدام سے قبل زمینی حقائق کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ موٹرسائیکل غریب اور نچلے متوسط طبقے کی قابل دسترس سواری ہے۔ تباہ حال اور شکستہ بسوں کی چھتوں اور پائیدانوں پر لٹک کر، چنگ چی اور سوزوکیوں کے اذیت ناک سفر کی نسبت اس طبقے کو موٹر سائیکل کی سواری میں آسانی دکھائی دی۔
اس کم خرچ سواری کوعموماََ ایک شادی شدہ جوڑے کو شادی کے اولین ایام سے لے کر چوتھے پانچویں بچے کی پیدائش تک بھی مستقل مزاجی سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔ موٹر سائیکل کے اس ’’طویل سفر‘‘ کے تحفظ کے لئے ہیلمٹ کی پابندی یقیناََ خوش آئند ہے، مگر وہ خواتین ہی کیا جو کسی حال میں خوش ہوجائیں۔ نئے حال میں نئے مسائل۔ اب ذرا تصور تو کریں اس سفر کا، موٹرسائیکل کی انتہائی غیر آرام دہ نشست پر براجمان سارے راستے لٹکنے والے کپڑوں (دوپٹے، عبایا) کا سنبھالنا، قدم قدم پر ہڈی پسلی ایک کردینے والے سڑکوں کے نشیب وفراز، اس پر مستزاد لگاتار ہمسفر رہنے والے کچرے کے چھوٹے بڑے ڈھیر اور ان سے نکل کر سیدھا دماغ میں پیوست ہوجانے والی میزائل صفت بدبو۔ بھلا بتائیں اتنے گھمبیر حالات میں خواتین سے سروں پر ہیلمٹ رکھنا برداشت ہوگا؟ اور موٹرسائیکل کا یہ سفر اگر کسی تقریب کے لئے ہوا تو کیا خواتین اپنے حسین ہیئر اسٹائل اور خوبصورت میک اپ بلکہ گیٹ اپ کو ہیلمٹ پر قربان کرسکیں گی؟
ان تمام جھنجھٹوں کے ساتھ، خواتین کو ہیلمٹ کی افادیت سے مرعوب کرنا مشکل ہے۔ ان کی اس جانب ترغیب کے لئے اُمید افزا اقدام ان کے پسندیدہ طریقہ کار کا اطلاق بھی ہوسکتا ہے، اور وہ ہے خواتین ہیلمٹ کا فیشن میں ’’اِن‘‘ ہونا۔ جب جگہ جگہ دکانوں، بازاروں، شاپنگ مالز میں دعوت خریداری دیتے ہوئے لیڈیز ہیلمٹ سجے ہوں گے تو ممکن نہیں کہ خواتین اس جانب متوجہ نہ ہوں۔
اس عمل سے مردوں کو البتہ کچھ مشکلات کا سامنا ہوجائے گا۔ ایک تو موٹرسائیکل سوار صنفِ نازک کو تاڑنے کے مواقع مفقود ہوجائیں گے دوسرا عدم پابندی یا حکم عدولی کی صورت میں ٹریفک اہلکار اضافی دیہاڑی سے محروم رہ جائیں گے۔ مردوں کی جیب پر ہیلمٹ کے خرچ کا نہ صرف اضافی بوجھ بڑھ جائے گا بلکہ فیشن کے چکر میں یہ بوجھ ماہانہ بجٹ کا مستقل حصہ بن جائے گا، کیونکہ کپڑوں کے حساب سے میچنگ کے ہیلمٹ کا مطالبہ کبھی بھی کیا جاسکتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ تمام اندیشے، امکانات بر طرف خواتین سواروں کے تحفظ کے لئے ہیلمٹ کی پابندی کا حکومتی فیصلہ بلاشبہ وقت کی ضرورت ہے مگر یہ بھی اہم ترین معاملہ ہے کہ اس فیصلے سے متعلق ممکنہ دیگر امور کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ خواتین تو ہیلمٹ سے محفوظ ہوجائیں گی لیکن ان کی گود اور آگے پیچھے بیٹھے ’بِنا ہیلمٹ‘ ننھے سواروں کی زندگیاں کیا اہم نہیں؟ لہذا ضروری ہے کہ قوانین سے قبل ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری لائی جائے۔ کراچی میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر پبلک ٹرانسپورٹ کے 200 روٹس انتہائی ناکافی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب اتنے بڑے شہر میں 3 میٹرو ٹریکس سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہونے کا خواب خام خیالی دکھائی دیتا ہے۔
حکومت شہریوں کو ایسا با سہولت نظام فراہم کرے جس سے موٹرسائیکل سوار فیملیز یہاں تک کہ گاڑیوں والے افراد بھی یکساں طور پر اس کو ترجیح دیں اور اس میں بیٹھنا پسند کریں۔ مرد و خواتین سواروں کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ ننھے سواروں کی زندگیاں بھی قیمتی ہیں۔ لہذا خواتین کے ہیلمٹ پہننے کے نفاذ سے قبل اس کی بتدریج ترغیب کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے انسانی جان کی قدر و قیمت کا احساس دلانا ہوگا کہ ہیلمٹ زندگی کی حفاظت اور حادثات سے بچاؤ کے لئے کتنا ضروری ہے۔ نیز عدم پابندی کی صورت میں چالان کے سلسلے میں سرکاری اہلکاروں کو غیروں کے معاملے میں سختی اور اپنوں کے ساتھ نرمی اور سفارشی کلچر کو بھی خیر باد کہنا ہوگا۔ان شاء اللہ! وہ وقت آئے گا کہ خواتین کے لئے ہیلمٹ کی ضرورت سے شروع ہونے والی تبدیلی بہتر ٹرانسپورٹ کے نظام کیآمد پر متنج ہوگی۔