’’جبرواستبداد اور ظلم وستم کے شکار افراد کی اعانت کرنا آسان نہیں ہے۔فنڈز کا حصول تو اپنی جگہ مشکل امر ہے ہی لیکن زیادہ مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ان فنڈز کو غیر متنازع طور پرمستحقین تک کیسے پہنچایا جائے؟متعلقہ حکومتیں ستم زدگان تک پہنچنے میں بار بار اور سنگین رکاوٹیں ڈالتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ امداد پہنچانے والے اداروں کے توسط سے مظلوموں کی صحیح تصویر دنیا تک پہنچ جائے۔
مقبوجہ کشمیر، مقبوضہ فلسطین، میانمار اور صومالیہ میں اِنہی حالات کا سامنا ہے۔‘‘ یہ الفاظ عبدالرزاق ساجد کے ہیں جن کا ادارہ چار سال قبل میانمار کے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے پاس مقدور بھر امداد لے کر پہنچا تھا۔ وہ خود جان ہتھیلی پر رکھ کر اس امدادی قافلے کی قیادت کر رہے تھے۔ ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں تک امداد پہنچانے والاعالمِ اسلام کا پہلا غیر سرکاری ادارہ تھا۔ اُس وقت ابھی روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے برمی فوجی حکومت کے مظالم کے واقعات کھل کر عالمی میڈیا کے سامنے نہیں آئے تھے۔ ظلم وجور کی داستانیں بہرحال کسی نہ کسی طرح باہر آہی رہی تھیں کہ پاکستان میں بھی تو پچھلے کئی برسوں سے ان روہنگیا مسلمانوں کی آمدکا سلسلہ جاری ہے۔ ایک انگریزی معاصر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تین اہم شہروں میں پانچ لاکھ روہنگیا مہاجر مسلمان رہائش پذیر ہیں۔
انھوں نے اپنی کالونیوں اور محلّوں کے نام بھی اپنے (سابقہ) وطن کے نام پر رکھے ہُوئے ہیں۔ نائن الیون کے سانحہ کے بعد، بد قسمتی سے، دنیا کے حالات نے کچھ اس تیزی سے پلٹا کھایا ہے کہ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف مغربی دنیا توجہ دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔یواین او بھی اپنی آنکھیں بند رکھنے ہی میں عافیت سمجھتا ہے اور کئی امیر مسلمان ممالک کے حکمران امریکہ اور مغربی ممالک کے تیور دیکھ کر مظلوم مسلمانوں کے حق میں لب کشائی کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ یہ المیہ ہے اور اس المیئے نے امداد تقسیم کرنے والے عالمی اداروں کی راہوں میں کانٹے بکھیر دیے ہیں۔ عبدالرزاق ساجد بھی اِنہی رکاوٹوں کا سامنا کرہے ہیں۔
جناب عبدالرزاق ساجد بنیادی طور پر پاکستانی ہیں۔ اب مگر پچھلے تین، ساڑھے تین عشروں سے برطانیہ کے دارالحکومت، لندن، میں رہتے ہیں۔ساجد صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اُن کی اہلیہ محترمہ بھی اِسی جامعہ کی فارغ التحصیل ہیں۔ دَورِ طالبعلمی میں وہ اسٹودنٹس پالیٹکس کا متحرک حصہ رہے۔ نظم و ضبط کی زندگی گزارنا اور ادارے بنانے کا گُر انھوں اپنے زمانہ طالبعلمی کے دوران اُس طلبا تنظیم سے سیکھا جس کے وہ رہبر ورہنما رہے ہیں۔ تہی دستوں، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا مسلک یا رنگ یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں، کی دستگیری کرنے میںاُن کی کمٹمنٹ اور لگن دیکھ کر ہمیشہ رشک آتا ہے۔
تقریباً 35برس قبل انھوں نے اپنے مرشد و مربی حاجی حنیف طیب صاحب(سابق وفاقی وزیر)کی سرپرستی میں ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘کی بنیادیں رکھیں تو انھیں اُمید تھی کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے میں ضرور برکت ڈالے گا۔میڈیا سے دانستہ دُور رہنے والے عبدالرزاق ساجد کا کہنا ہے کہ ’’اگر میڈیا میں خود نمائی کا چسکا ہوتا تو یہ تھوڑا بہت کام کرنے کی جو سعادت اور کامیابی مل رہی ہے، یہ بھی نہ مل پاتی۔‘‘
وجہ بتاتے ہُوئے کہا:’’مثال کے طور پر اگر اپنی خدمات کا چرچا کرتا تو پچھلے چار برسوں سے مسلسل روہنگیا مسلمانوں کی جو بھی اور جتنی بھی امداد کرنے کا موقع مل رہا ہے، یہ راستہ کب کا رُک چکا ہوتا۔ میانمار یا برما کی فوجی حکومت روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے اتنی حساس رہی ہے کہ مدد لے کر وہاں جانا ممکن نہ رہتا؛ چنانچہ چوری چھپے کہہ لیں، خفیہ کہہ لیں، جھوٹ بول کر کہہ لیںیا بھیس بدل کر کہہ لیںیا حکمت سمجھ لیجئے…ہم خاموشی کے ساتھ،کئی بااعتماد برمی دوستوں کے تعاون اور توسط سے روہنگیا مسلمانوں تک، جتنا بھی ممکن ہو سکا، امداد پہنچاتے رہے ہیں۔
یہ سلسلہ اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ،کسی نہ کسی شکل میں، جاری ہے۔‘‘ راقم پہلے بھی اِن کالموں میں ایک دوبار، انسانیت کا درد رکھنے والی دیگر کئی تنظیموں کے ساتھ، اُن کے ادارے کی خدمات کا ذکر کر چکا ہے لیکن روہنگیا مسلمانوں کی امداد کی بات کرنے کے حوالے سے ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد صاحب نے احتیاط کا دامن تھام رکھا تھا۔کہنے لگے: ’’اس خدمت کو اچھالنے کا فائدہ؟‘‘ گزارش کی گئی کہ ممکن ہے تحدیثِ نعمت کے طور پر ذکر سے کچھ مزید لوگوں کو بھی تحریک ملے اور وہ بھی روہنگیا مسلمانوں کی دامے درمے سخنے امداد کرنے پر مائل ہو سکیں۔
ہمارا یہ کہنا شائد کارگر ثابت ہُوا تھا؛ چنانچہ عبدالرزاق ساجد صاحب کہنے لگے: ’’چار سال پہلے برطانوی میڈیا کے ذریعے جب مجھے پہلی بار روہنگیا مسلمانوں کی بدحالی، مظلومیت اور عسرت و تنگدسی کا علم ہُوا تو مَیں نے اُسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ میانمار کے ان مسلمانوں کے پاس ہر صورت پہنچوں گا۔ کبھی کبھی پولیس کی مُٹھی بھی گرم کرنا پڑی۔‘‘ عبدالرزاق ساجد نے بتایا ’’میانمار میں ہندو لابی بہت طاقتور اور امیر ہے۔
بھارت کا بھی وہاں بہت اثر ہے کہ بھارت نے برما کی تعمیرو ترقی میں خاصا کردار ادا کیا ہے۔ درجنوں پُل بھی بنائے ہیں اور وہ طویل ومشکل سڑک بھی تعمیر کی ہے جو بیک وقت بھارت، برما اور تھائی لینڈ کے زمینی رابطے کا ذریعہ ہے۔ اس وجہ سے بھی روہنگیا مسلمانوں کی مدد امداد کرنا آسان نہیں ہے۔بعض غیر محتاط مسلمان مذہبی و جہادی تنظیموں نے بھی وہاں کام خراب کیا ہے۔ اُدھر روہنگیا مسلمانوں کے گلے کاٹے جارہے تھے اور اِدھر رنگون شہر کی ایک مسجد پر قبضہ کرنے کے لیے دو مسلمان تنظیمیں باہم دست و گریبان ہو رہی تھیں۔‘‘ یہ کہہ کر ساجد صاحب بہت دلگرفتہ نظر آئے۔
پھر وہ بولے: ’’پچھلے تین چار برسوں سے ساری عیدیں مَیں روہنگیا، اراکانی مسلمانوں کے درمیان گزارتا آ رہا ہُوں۔ بہت سے مظالم کا عینی شاہد ہُوں لیکن گزارش کرنا چاہتاہُوں کہ روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنی ہے تو سب مسلمانوں کو احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ برمی حکومت، وہاں کی بدھ تنظیموں اور بدھ مذہبی رہنماؤں کے بارے میں کوئی بھی قابلِ گرفت لفظ منہ سے نکالنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس سے بچنا ہوگا کہ دُور بیٹھنے والے سُوچی صاحبہ کی مجبوریوں سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ میانمار کے فوجی حکمرانوں کے بارے میں بھی ہمیں اپنی زبانوں کو بتیس دانتوں میں دبا کر روہنگیا والوں کی ممکنہ دستگیری کرنا ہوگی۔ برمی حکومت کے خلاف سخت تنقیدی رویوں سے معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں اور اس کا نقصان صرف روہنگیا مسلمانوں کو ہوگا۔‘‘
عبدالرزاق ساجد صاحب کے مشورے میں ذا تی مشاہدات اور تجربات بول رہے تھے۔ ابھی چند دن پہلے اسلام آباد میں بعض مذہبی تنظیموں نے برمی سفارتخانے کے سامنے جلوسوں کی شکل میں احتجاج کیا ہے۔ کاش ان جلوسوں پر خرچ کیا جانے والا روپیہ بنگلہ دیش میں آنے والے نئے روہنگیا مہاجر مسلمانوں کے کسی کام آسکتا!!