میری صحافت اور چودھری نثار علی خان کی متحرک اور بھرپور سیاست کا آغاز 1985ءمیں تقریباً ایک ساتھ ہوا تھا۔وہ چکری سے قومی اسمبلی کے پہلی بار رکن منتخب ہوئے اور مجھے اپنے کیریئر میں پہلی بار پارلیمانی کارروائی پرا نگریزی اخبار”دی مسلم“ کے لئے ایک کالم لکھنے کا موقعہ ملا۔
چودھری صاحب کو پہلی ذمہ داری وزارتِ خزانہ کے امور پر اٹھائے سوالوں کی بطور پارلیمانی سیکرٹری قومی اسمبلی میں جوابات دینے کی ملی۔ وزیر خزانہ ان دنوں مرحوم ڈاکٹر محبوب الحق ہوا کرتے تھے۔ وہ ایک بہت ذہین اور اپنے شعبے کے ماہر گردانے جاتے تھے۔ ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں میں بھی ان کا نام گونجتا تھا۔ جنرل ضیاءالحق کے چہیتے تھے۔ اپنے معاونین کے کام سے مگر کم ہی مطمئن ہوا کرتے۔ چودھری نثار علی خان نے اپنی محنت اور اعتماد کی بدولت مگر انہیں متاثر کیا۔ چودھری صاحب نے جس لگن کے ساتھ اپنا فرض نبھایا، وہ جنرل ضیاءاور ان کے رفقاءکو بھی بہت پسند آیا۔ چند ہی ماہ بعد لہذا وہ تیل اور گیس جیسی اہم وزارت کے سربراہ بن گئے۔ یہ وزارت نواز شریف کے گزشتہ دونوں ادوار میں بھی ان کے پاس رہی۔
نواز شریف حکومت میں نہ ہوں تو چودھری نثارعلی خان اپوزیشن کی صفوں میں سب سے نمایاں اور بلند آہنگ سمجھے جاتے ہیں۔ سیاست میں تین سے زیادہ دہائیاں گزارنے کے باوجود ان کے بارے میں مالی بدعنوانیوں کی کہانیاں نہیں پھلیں۔ہمارے سیاسی ماحول میں یہ تقریباََ انہونی بات سمجھی جاتی ہے۔
اپنے کام سے کام رکھنے اور منہ آئی بات پھٹ سے کہہ دینے کی بناءپر چودھری صاحب ایک مغرور انسان سمجھے جاتے ہیں۔ میرے ساتھ ان کا رویہ مگر ہمیشہ بہت دوستانہ رہا ہے۔ان کی مسلسل شفقت لیکن مجھے جب بھی ضرورت پڑے ان پر تنقید کرنے سے باز نہیں رکھتی۔ گھوڑا گھاس سے محبت کرنا شروع ہوجائے تو بھوک سے مرجائے گا۔ صحافی جب طاقت ور سیاست دانوں کی ”دوستی“ کا لحاظ کرنا شروع ہوجائیں تو ”منشی“کہلاتے ہیں۔ منہ آئی بات لکھ ڈالنا میری پیشہ وارانہ مجبوری ہے۔ چودھری صاحب کی زودرنج طبیعت میری اس مجبوری کو مگر سمجھ نہیں پاتی۔اکثر ناراض ہوجاتے ہیں۔ بالآخر درگزرشاید اس لئے کردیتے ہیں کہ انہیں خوب علم ہے کہ میں صرف صحافی ہوں۔ اپنے پریس کارڈ کے ذریعے مجھے کوئی اور دھندا چلانے کا ہرگز کوئی شوق نہیں۔
اتنی لمبی تمہید کے بعد مجھے اعتراف یہ کرنا ہے کہ ان دنوں مجھے چودھری نثار علی خان جیسے دبنگ وزیر پر انتہائی رحم آرہا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ خود کو دیوار سے لگااور اتنا بے بس کیوں محسوس کررہے ہیں۔
چند ہفتے قبل بنی گالہ سے اپنے گھر جاتے ہوئے سلیمان حیدر نامی ایک شاعر اور پروفیسر کواسلام آباد ایکسپریس وے پر ”نامعلوم افراد“ نے اٹھالیا۔ چودھری صاحب نے ”آن دی ریکارڈ“ اس شاعر کو بازیاب کروانے کا وعدہ کیا۔ ان کے وعدے کی تکمیل سے قبل ہی مگر ریگولر اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ بات پھیلادی گئی کہ لاپتہ ہوئے شاعر کا تعلق چند بھٹکے ہوئے نوجوانوں کے اس گروہ سے تھا جومبینہ طورپر فیس بک وغیرہ کے ذریعے افواج پاکستان اور ہمارے دین کے خلاف ہرزہ سرائی کا مرتکب ہورہا تھا۔ یہ دونوں الزامات اپنی جگہ انتہائی سنگین تو ہیں مگر توہینِ دین کا الزام بھی کسی شخص پرلگادیا جائے تو وہ اور اس کا خاندان ممکنہ”ممتاز قادریوں“ سے اپنی جان بچانے کی فکر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
چودھری صاحب دینِ اسلام سے بے پناہ محبت کرنے والے شخص ہیں۔ صوم وصلوة کے پابند بھی۔مجھے مکمل یقین ہے کہ اگر گم شدہ شاعر واقعتا ان معاملات میں ملوث ہوتا جس کا الزام لگایا جارہا تھا تو وہ کبھی اس کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہ کہتے۔ جنوری کی 19تاریخ کو مگر چودھری نثار علی خان کے ایک تحریری بیان نے مجھے حیران کردیا۔ اس بیان کے ذریعے انہوں نے لوگوں سے درد بھری فریاد کی کہ لاپتہ افراد کے بارے میں ایسے الزامات نہ لگائے جائیںجو ان کی ذات ہی نہیں بلکہ خاندان بھر کے لئے انتہائی سنگین نتائج کا باعث ہوسکتے ہیں۔ چودھری صاحب کی یہ فریاد مگر سنی نہ گئی۔الزامات کا سلسلہ زور وشور سے جاری رہا۔ چودھری نثار علی خان جیسا متحرک اور طاقت ور وزیر الزامات لگانے والوں کامنہ بند نہ کرواپایا۔
اس سب کے باوجود مگر ربّ کا کرم یہ بھی ہوا کہ گزشتہ ہفتے کے اختتامی دنوں میں لاپتہ ہوئے نوجوان اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ان کی بازیابی میں چودھری صاحب نے اہم کردار ادا کیا ہوگا۔ گھر لوٹ آنے کے بعد سے لاپتہ ہوئے افراد نے اپنے لب سی لئے ہیں۔وہ کسی ریاستی ادارے یا دوستوں کو یہ بتانے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ انہیں کس نے کیوں اُٹھاکر کہاں رکھا اور کس نوعیت کے سوالات یا مطالبات اٹھائے اور کئے۔ ”جان بچی سولاکھوں پائے“ والا منطقی رویہ۔
اس رویے کے باوجود بدھ کی صبح ایک انگریزی اخبار میں خبر چھپ گئی کہ چودھری صاحب کی ماتحتی میں کام کرنے والی ایف آئی اے نے سلیمان حیدر کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کردی ہے۔ اس حیران کن خبر کے چھپنے کے کئی گھنٹے گزرجانے کے بعد چودھری نثار علی خان نے بدھ کی شام ایک اور بیان جاری کیا۔ اس چارنکاتی بیان میں وفاقی وزیر داخلہ نے انتہائی پریشانی کے عالم میں یہ معلوم کرنا چاہا کہ ایف آئی اے ایسے حساس معاملے پر جو لاپتہ ہوئے افراد اور ان کے خاندان کو پہلے ہی شدید اذیت پہنچاچکا ہے،اتنی پھرتی کیوں دکھارہی ہے۔
چودھری صاحب خواہ مجھ سے ایک بار پھر شدید ناراض ہوجائیں مگر میں یہ بات کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ یہ بیان دے کر چکری کے دبنگ راجپوت نے درحقیقت اپنی مکمل بے بسی کو بے نقاب کیا ہے۔ وہ چودھری نثار جسے میں جانتا تھا،آج بھی ویسے ہی طاقت ور اور بااثر ہوتے تو بدھ کی شام شاید خبر یہ آتی کہ وزیر داخلہ نے گم شدہ شاعر کے بارے میں چھپی خبر کا فوری نوٹس لیا اور ضرورت سے زیادہ پھرتی دکھانے والے ایف آئی اے کے افسر کو معطل کرکے اس کے خلاف محکمانہ کارروائی کاحکم صادر کردیا ہے۔
چودھری صاحب کے اس بیان کے بعد میں نے انتہائی پریشانی میں فیصلہ یہ کیا ہے کہ یہ کالم لکھتے ہوئے ہمیشہ محتاط رہوں۔ میرے اندر رپورٹنگ کی جو صلاحیتیں اور ہمت باقی رہ گئی ہے انہیں بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کروں کہ وطنِ عزیز میں ان دنوں اصل اختیار کس کے پاس ہے۔ اصل قوت واختیار والے افراد کونسے خیالات کا اظہار پسند نہیں کرتے تاکہ میں ان کا اشارةََ ذکر کرنے سے بھی گریز کروں۔
کئی بار اس کالم میںاعتراف کرچکا ہوں اور آج حلفیہ اعلان کرتا ہوں کہ مجھے نڈر اور بے باک صحافی والی شہرت ہرگز درکار نہیں۔ میں خیروعافیت سے اپنے گھر کے کسی کونے میں دبک کر زندگی کے بقیہ دن گزارنا چاہتا ہوں۔ میرے اپنے کوئی خیالات نہیں ہیں۔ وطنِ عزیز میں اصل قوت واختیار والے جن خیالات کا فروغ چاہتے ہیں میں انہیں تواتر کے ساتھ لکھنے کے لئے ہمہ وقت دستیاب اور تیارہوں۔ مجھے حکم تو دیا جائے۔ تعمیل نہ ہو تو گردن حاضر ہے۔
یہ سب لکھنے کے باوجود میری اپنے ادارے، دوستوں اور عزیزوں سے دست بستہ فریاد ہے کہ اگر نادانستگی میں مجھ سے کوئی چوک ہوجائے۔ میں لاپتہ ہوجاﺅں تو خدارا وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان صاحب سے میری بازیابی میں معاونت کے لئے کوئی درخواست نہ کی جائے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ میرے تحفظ کے لئے وزیر داخلہ ہوتے ہوئے بھی چکری کے دبنگ راجپوت کو درد بھری فریاد پر مبنی بیانات جاری کرنا پڑیں۔