خاموش قاتل ہپاٹائیٹس
تحریر :۔ ڈاکٹر تصور حسین مرزا
پاکستان میں تیزی سے پھیلتا ہوا مہلک مرض ہیپا ٹائیٹس ہے ۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس کو ہم خاموش قاتل بھی کہتے ہیں ۔ بنیادی طور پر ہیپاٹائیٹس کا مطلب ہے جگر کی سوزش ۔ جگر کی سوزش کی دو بڑی اقسام ہیں
نمبر 1 متعدی سوزش ِ جگر جس کا مطلب ہیں وائرسی سوزش جیسا کہ
HEPATITIS A ،HEPATITIS D ,HEPATITIS C,HEPATITIS B .HEPATITIS E ہیپا ٹائیٹس
وغیرہ غیر متعدی سوزشِ جگر عموماً ٹائفائڈ بخار، کھانے پینے کی بد پریزی،گندے پانی اور ہاتھ منہ صاف نہ دھونے سے لاحق ہو جاتا ہے۔ عموماً سادہ یا پیلا یرقان ہوتا ہے۔ خون کی کمئی، جسم اور آنکھوں کی رنگت پیلی ، کمزوری اور لاغری جیسی علامات پیدا ہو جاتی ہیں ۔ ۔یرقان میں مبتلا عموماًً وہ بچے ہوتے ہیں ، جو ہر وقت گندی اشیاء کھاتے ہیں، گرمیوں میں بازار میں فرخت ہونے والے غیر معیاری فروٹ، دھی بھلے سموسے پکوڑے اور گھٹیاں تیل میں تلی ہوئی اشیاء یرقان کو بڑھاتے ہیں پرہیز اور احتیاظ سے عموماًً دو ہفتوں میں مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔۔
اصل مسئلہ خاموش قاتل یعنی ہیپاٹائیٹس کا ہے ۔۔
برطانوی میڈیکل جرنل ’لانسیٹ‘ کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی سب سے مہلک بیماریوں میں ایک وائرل ہیپاٹائٹس ہے جس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ایڈز یا تپ دق سے ہونے والی ہلاکتوں جتنی ہیں۔جرنل سے شائع ہونے والی رپورٹ کے تخمینے کے مطابق وائرل ہیپاٹائٹس کی ادویات اور علاج ہونے کے باوجود سنہ 2013 میں اس کے انفیکشنز سے 14 لاکھ 50 ہزار ہلاکتیں پیش آئیں تھی۔
عالمی ادارہ صحت کے عداد شمار کے مطابق سنہ 2014 میں 12 لاکھ ہلاکتیں ایڈز سے منسلک تھیں جبکہ تپ دق کی وجہ سے 15 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔
دنیا میں ہونے والی بیشتر ہلاکتیں ہیپاٹائٹس بی اور سی کی وجہ سے ہوتی ہیں جو جگر کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں اور جگر کے سرطان کی وجہ بھی بنتی ہیں۔
لیکن چونکہ لوگوں کو ابتدائی انفیکشن کی علامات کا کم پتہ چلتا ہے انھیں طویل مدتی نقصان کے بارے میں بہت دیر جانے سے قبل بتایا جا سکتا ہے۔
امپیریل کالج لندن اور یونیورسٹی آف واشنگٹن کے سائنس دانوں نے سنہ 1990 اور سنہ 2013 کے درمیان 183 مملک کے عداد شمار کا جائزہ لیا تھا۔
جائزے میں یہ دیکھا گیا کہ دو ددہائیوں میں وائرل ہیپاٹائٹس سے ہونے والی ہلاکتیں 60 فیصد سے تجاوز کر گئیں۔ اس کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔
دو سری جانب تپ دق اور ملیریا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ وائرس مشرقی ایشیا میں زیادہ نظر آیا ہے۔
پیلیا، جونڈس، ہیپا ٹائٹس اے وغیرہ وغیرہ، ایک ہی مرض کے مختلف نام ہیں۔ یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہے۔ اس بیماری کا وجود مصری تہذیب میں بھی مذکور ہے۔ یونانی دیو مالائی کہانیوں میں بھی اس بیماری کا ذکر آیا ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب وید میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ 200 سال قبل مسیح میں لکھی گئی،چرک نگھٹو‘‘ میں چرک رشی نے بھی اس مرض پر بحث کی ہے اور تدارک کے لیے ’’لوہ مانڈو‘‘ پلانے کا مشورہ دیا ہے۔ یعنی ان جڑی بوٹیوں کا عرق جو ’’لوہ‘‘ یعنی لوہا (Iron) پیدا کرتی ہیں۔
ہیپا ٹائٹس جگر کی سوزش کو کہتے ہیں اور یہ سوزش کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ اس کے پیدا ہونے کے عوامل بھی بہت سارے ہیں لیکن سب سے اہم وجہ ہے کہ ہیپا ٹائٹس کے وائرس کا جگر پر حملہ۔ اس حملے سے انسان ہیپا ٹائٹس اے یا بی یا سی یا ڈی یا پھر ای کا شکار ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ کم علمی کے باعث ہیپا ٹائٹس اے کو معمولی بیماری سمجھتے ہیں اور اسے جھاڑ پھونک کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔