تحریر : ماجد امجد ثمر
انسان کے پاس سب سے بڑی دولت صحت کی ہی ہوتی ہے۔ صحت کے ساتھ ہی انسان ذندگی کی دیگر خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے اگر صحت جیسی دولت نہ ہو تو روپے پیسے کی دولت کسی کام کی نہیں رہتی اس لئے ہی کہا جاتا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے لیکن اس دنیا میں جہاں دوسری بیماریاں انسانی صحت کی دشمن ہیں وہاں ان میں ایک نام ہیپاٹائٹس کا بھی آتا ہے۔
ہیپاٹائٹس کا عالمی دن ہر سال 28 جولائی کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔یہ دن پہلی مرتبہ 2008 ء میں منایا گیا تھااور اس سال یعنی2015ء میں یہ دن آ ٹھویں مرتبہ منایا جا رہا ہے۔ ہیپاٹائٹس کا دن بھی عالمی ادارہ صحت (WHO) کے منتخب کردہ صحت سے متعلقہ آٹھ عالمی دنوں میں سے ایک ہے۔hepatitis کا مطلب ہوتا ہے جگر کی سوزش۔اور یوں بنیادی طور پر یہ ایک ایسی بیماری ہے جوانسانی جگر کو اانتہائی برے طریقے سے متاثر کرتی ہے۔اس وقت بھی دنیا بھر میںتقریباً 500 ملین یعنی پچاس کروڑ افراد ایسے ہیں جو اس خطرناک ترین بیماری سے متاثر ہیں۔اوراگر ہیپاٹائٹس بی یا سی کا بر وقت تشخیص اور علاج نہ ہو سکے تو بلا آخر یہ جگر کے کینسر یاجگر کی ناکامی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
دراصل اس بیماری کے مریضوں کی اتنی ذیادہ تعداد ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہیپاٹائٹس کبھی بھی فوراً علامات ظاہر نہیں کرتا اور HBV یا HCV وائرس بغیر کوئی علامت ظاہر کئے انسان کے خون میں کافی عرصے تک رہ سکتے ہیںاور پھر جب اچانک سے اس بیماری کا پتہ چلتا ہے تو معاملہ کافی بگڑ چکا ہو تا ہے۔لیکن یہ دونوں وائرس قابل علاج ہیںاور مسلسل علاج معالجے سے ان پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
ہیپاٹائٹس کا وائرس جسے عام طور پر (یرقان )بھی کہا جاتا ہے اس کی تین اقسام ہیں۔ا۔ ہیپاٹائٹس A۔٢۔ہیپاٹائٹس B۔اور ٣۔ ہیپاٹائٹس C۔طبی ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس اے ذیادہ خطرناک بیماری نہیں اور اس یرقان کا مریض اکثر بغیر کسی علاج معالجے کے ہی صحت یاب ہو جاتا ہے اگر وہ بہتر خوراک اور پرہیز سے کام لے۔لیکن ہیپاٹائٹس بی اور سی کا مرض نسبتاً ذیادہ مہلک ہوتا ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق اگر ہیپاٹائٹس بی کے مرض کا علاج نہ کیا جا سکے تو اس سے نہ صرف جگرکا کینسر ہو سکتا ہے بلکہ یہ ہلاکت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق صرف امریکہ میں ہی ہر سال تین سے پانچ ہزار لوگ ہیپاٹائٹس بی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔اور اب ذکر کرتے ہیں ہیپاٹائٹس Cکا۔ہیپاٹائٹس سی جسے کالا یرقان بھی کہا جاتا ہے اس مرض میں مبتلا مریضوں کی اکثریت سوزش جگر کا شکار ہو جاتی ہے۔اور اگر علاج میں کوتاہی برتی جائے تو رفتہ رفتہ ان مریضوں کا جگر بالکل سکڑ جاتا ہے۔ یعنی cirrhosisہو جاتا ہے۔اس میں مریض کا جگر اپنی افادیت کھو دیتا ہے اور بالکل ناکاڑہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ چند ایک مریضوں کو جگر کا کینسر بھی ہو جاتا ہے جسے طب میں Genotypeکہتے ہیں۔ہیپاٹائٹس سی کے وائرس کی کئی اقسام ہیں پاکستان میں ذیادہ تر جینو ٹائپ تھری ہی پائی جا تی ہے۔لیکن اب اس کا موثر علاج ممکن ہے۔ہیپاٹائٹس سی کا وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد دو سے پچاس ہفتوں میں بیماری پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔دنیا بھر میں اس کے مریضوں کی تعداد تقریباً 35 کروڑ کے قریب ہے خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں ان کی تعداد ذیادہ ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو ہیپاٹائٹس کے متعلق ذیادہ آگاہی نہیں ہے کہ یہ کن ذرائع سے پھیلتا ہے اور اس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔
لہذاسب سے پہلے اس کے پھیلاو کی وجوہات جاننا بہت ضروری ہیں۔ہیپاٹائٹس AاورEذیادہ تر آلودہ پانی اور نامناسب خوراک کے زریعے پھیلتا ہے۔لیکن یہ چونکہ ذیادہ خطرناک نہیں ہوتا اس لئے اس میں تھوڑے پرہیزاور ہلکے پھلکے علاج سے بھی مکمل فرق پڑ جاتا ہے۔اس اے اور ای وائرس سے بچنے کے لئے اگر ان چند احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے جیسے کہ کھانا کھانے سے پہلے صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھونا،پانی ابال کر پینااور حفظانِ صحت کے مطابق کھانا کھایا جائے تو اس بیماری سے انسان مکمل طور پر محفوظ رہ سکتا ہے۔اور اب ہیپاٹائٹس BاورCپر غور کریں تو یہ وائرس اے اور ای کی نسبت بہت ذیادہ مہلک ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں ہی 18ملین یعنی ایک کڑوڑ اسی لاکھ افراد اس وائرس یا مرض کا شکار ہیں۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی کوئی اچھوت مرض نہیں ہے اس لیے یہ ہاتھ ملانے ،کھانسی یا چھینکنے یا اکھٹے کھانے پینے سے نہیں پھیلتا بلکہ اس کے پھیلنے کی بڑی وجوہات یہ ہیں کہ یہ ذیادہ تر منشیات کے عادی افراد جو نشے کے لئے ایک ہی سرنج ایک دوسرے کے لئے استعمال کرتے ہیں ،خون کا بغیر ٹیسٹ کروائے کسی دوسرے کو منتقلی،خون کی مصنوعات کا استعمال،حجام سے استرا وغیرہ استعمال کرنے سے ، فٹ پاتھوں پر بیٹھے ڈینٹسٹ حضرات جواپنے آلات صاف کیے بغیر دوسروں کا چیک اپ شروع کر دیتے ہیں یہ چند زرائع اس وائرس کو پھیلانے میں بڑی وجہ بن رہے ہیں ۔اور ہیپاٹائٹس بی اورسی کی اہم علابات میں مریض کا تھکاوٹ محسوس کرنا،متلی یا قے آنا ،بھوک میں کمی ،جلد اور آنکھوں میں پیلاہٹ ،اور سیاہ پیشاب کا آنا شامل ہے۔لیکن اگر مریض کا علاج متواتر رہے تو چند ہفتوں میں اس کا کامیاب علاج ممکن ہے۔ ہیپاٹائٹس کے مریضوںکے لئے خوراک مریض کی حالت کے مطابق متوازن اور موزوں ہونی چاہیے ۔الکوحل ،چکنائی والی اشیائ،سرخ گوشت وغیرہ سے مکمل پرہیز ہونا چاہئے اور تازہ پھل و سبزیاں اور فریش جوسز کا استعمال ذیادہ کیا جائے۔
اس میں انڈہ اور دودھ پروٹین حاصل کرنے کا ایک بہترین زریعہ ہے۔ اس مہلک مرض سے بچنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر ضروری ہیں جیسا کہ خون ہمیشہ ٹیسٹ کروا کر لگوائیں،انجکشن کے لئے ہر دفعہ نئی سرنج کا استعمال کیاجائے، کوشیش کرنی چاہیے کہ حجام سے استرا نہ ہی لگوایا جائے،الکوحل کا استعمال ترک کیا جائے اور سب سے اہم بات یہ کہ خواہ انسان تندرست ہی کیوں نہ ہو لیکنپھر بھی ہر انسان کو ان تمام مہلک امراض سے بچنے کے لئے سال میں کم از کم دو مرتبہ اپنے سارے خون کے ٹیسٹ اور مکمل چیک اپ ضرور کروانا چاہیے تا کہ مرض پر ابتدائی مراحل میں ہی قابو پا لیا جائے اور ایسا کرنے سے بندہ ذیادہ تکلیف برداشت کرنے سے بچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مرض کے خلاف آگاہی مہم چلا کر عوام میں کافی حد تک شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں میڈیا بھی ایک بڑااہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
تحریر : ماجد امجد ثمر