تحریر: شبانہ عامر
میرا نام مہ جبین ہے ۔ میں آج آپکو ایسی کہانی سنانے جا رہی ہوں ؛ جو بھلے وقتوں میں دیگر بزرگوں کی طرح رات کو میری دادی بھی سنایا کرتی تھیں جب رواج تھا بچوں کو اپنے اسلاف کی کہانیاں سنانے کا۔ چلیں میں ان کی زبانی آپکو سناتی ہوں جب میں بہت چھوٹی تھی پاکستان اور ہندوستان ایک ساتھ تھے میرے ابا جان کی تنخواہ دس روپے تھی جو اس وقت شاندار سمجھی جاتی تھی ۔ ابا جان میٹرک پاس تھے یعنی اُس دور کے تعلیم یافتہ انسان تھے ۔ میرے دادا بیوپاری تھا مویشیوں کا کاروبار کرتے تھے ۔ گھر میں خوشحالی تھی ۔ ہماری بستی کے سب گھرکچے تھےمگر ارد گرد بسنے والے لوگ پکے اور سچے تھے ۔ دولت نے گھر کی راہ دیکھ لی اور بستی سے ہم شہر منتقل ہوگئے یہاں بستی کی نسبت ارد گرد والوں سے میل جول کم ہو گیا ٌمزید اللہ کا کرم ہوا تو مکان سے ہم بڑی حویلی میں منتقل ہو گئے ؛ حویلی کے گرد و پیش مسلمان قوم کے ساتھ سکھوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
یہاں لوگ مل جُل کر ہنسی خوشی سے رہ رہے تھے۔ وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا بہت اچھا رشتہ ملا یوں بہترین تعلیم یافتہ خاندان میں میری شادی کر دی گئی۔ شادی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے 4 بیٹے اور 1 بیٹی عطا کی ۔ وقت گزرتا گیا بچے بڑے ہونے لگے ہمارا گھریلو ماحول انتہائی مذہبی تھا۔ میں نے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی ۔ انہیں دنیا اور دین کے ساتھ مضبوطی سے جوڑے رکھا۔ انہی دنوں غیر محسوس طریقے سے ہندوستان کے حالات خراب ہونے لگے ہر طرف شور شرابہ نفرت اور ہنگامہ آرائی تھی۔ یہ 1940 کی بات ہے جب پاکستان کا نام تجویز ہوا اور”” قرار داد لاہور”” کو طنزیہ ہندو قراداد پاکستان کہنے لگے۔ وقت گزرتا گیا اور بچے اب ہم سے قد میں اونچے ہو گئے ۔ اور پھر مجھے پتہ چلا کہ میرے سب سے بڑے بیٹے نے اس نے سکھ قوم کی بیٹی کو پسند کر لیا ہے۔ کچھ دیر تو بات اندر ہی اندر گردش کرتی رہی ۔ مگر جیسے ہی یہ بات خاندان کے بڑوں کے سامنے آشکار ہوئی تو میرے شوہرانتہائی ناراض ہوئے کیونکہ میرے بیٹے کی منگنی اُس وقت کے ماحول اور رواج کے مُطابق بچپن میں ہی طے کر دی گئی تھی۔
یہ 1947 کا ابتدائی دور ہے ۔ جب بیٹے سے اس کے والد نے براہ راست بات کی اور اسکو سخت الفاظ میں تنبیہہ کی اور جتلایا کہ وہ اسکی منگنی طے کر چکے ہیں۔ مگر بیٹے نے ایک نہ سُن کر دی اور اپنی ضد پر مضبوطی سے اڑا رہا ۔ میرے شوہر کو شدید صدمہ پہنچا اور وہ اس قدر خاموش ہو گئے گویا کہ وہ دنیا سے مکمل طور پے قطع تعلقی کر چکے ہیں۔ ان کی خاموشی سے سب لوگ اندر ہی اندر سہمے ہوئے تھے کہ نجا،نے کو نسا طوفان پوشیدہ ہے اس خاموشی میں ایک دن انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے دکھی آواز میں کہا کہ میں نے بہت غور کیا ہے مجھے تو یہی لگا ہے جیسے میری تربیت میں کہیں کوتاہی رہ گئی ہے جو میرا بیٹا دین سے لا تعلق ہو گیا ۔ انہوں نے مجھے گلوگیر آواز میں کہا کہ میں ہار گیا مگر ایک ماں کا درجہ اسی لئے اسلام نے تین گنا زیادہ رکھا باپ سے کہ وہ اپنے بچے کو راہ راست پر لا سکتی ہے میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس کو بچا لیں
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اتنی بڑی آ زمائش کہ بیٹا باپ کی سننے کو ماننے کو تیار نہیں میں تو انتہائی کمزور ہوں ۔ مگر اپنے شوہر کی رنجیدہ آواز اور آنسوؤں سے تر آنکھوں نے مجبور کر دیا کہ مجھے اس کو بچانا ہے کیسے؟ اس کے لئے سوچتے ہوئے کئی ماہ گزار دیے۔ انہی دنوں ہر جگہ اعلان ہو رہے تھے کہ فوج میں بھرتی کیلیۓ نوجوانوں کی ضوررت ہے ۔ میرا بیٹا 22 سال کا تھا باقی بچے اس سے چھوٹے تھے ۔ مجھے یہ اعلان بار بار متوجہ کر رہا تھا ۔ میں نے اپنے بچوں سے بات کی اور انہیں آمادہ کرنا چاہا کہ وہ فوج میں شمولیت اختیار کریں۔ چھوٹا بیٹا 16 سال کا تھا اس وقت کے مخدوش حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو تربیتی کورس میں داخلہ مل گیا۔ بڑے بیٹے نے فوج میں جانے سے انکار کردیا ۔ جس کا مجھے صدمہ تھا۔ اس کے سر پے ابھی تک اسی لڑکی کا بھوت سوار تھا۔ اسی دوران ایک اچھا رشتہ ملا اور میں اپنی اکلوتی بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو گئی۔ شادی کے بعد بیٹی گھر آئی تو باتوں باتوں میں میں نے اس سے بڑے بیٹے کی بات کرنے لگی کیونکہ اس کی وجہ سے بہت پریشان تھی۔
بیٹی نے کہا کہ ماں آپ اپنے بیٹے کو اصرار کر کے منوا سکتی ہیں کیونکہ اس وقت جو نیا ملک ہمارے لئے بننے جا رہا ہے اس میں نوجوانوں کی بہت ضرورت ہے اور یہ احساس آپ ہی اس میں جگا سکتی ہیں۔ فوج میں رہ کر وہ مشکلات سے لڑنا سیکھے گا اور ملک کا دفاع کرے گا تو اسے احساس ہوگا۔ میرے دل میں جیسے یہ بات محفوظ ہو گئی اور میں نے تہیہ کر لیا کہ جسیے بھی ہو اب میری ممتا کا امتحان ہے ہر ناجائز بات کو سن کر اب خاموش نہیں رہنا اپنے ملک کا قرض مجھے ہر صورت چکانا ہے۔ میں نے دیکھا کہ میفا بیٹا دالان سے اندر کی جانب آ رہا ہے میں بیٹی کے پاس سے فورا اٹھی اور چولہے کے پاس گئی اس میں موجود لکڑیوں کی راکھ مٹھی میں بھر کر اپنے بالوں میں ڈال دی۔
بیٹے نے یہ منظر دیکھا تو تو برق رفتاری سے بھاگتا ہوا میری جانب لپکا کہ ماں یہ کیا ہو گیا ہے آپکو؟ یہ کیا کیا؟ میں نے جواب دیا تیرے جیسے نا اہل جوان بیٹے کی ماں ہوں۔ تیرے کرتوتوں کی وجہ سے کل زمانہ جو راکھ میرے بالوں میں ڈالے گا خود ڈال رہی ہوں ۔ اس وقت ہر شہر ہر گاؤں پر گلی ہر گھر سے لوگوں کے بچے جوق در جوق فوج میں بھرتی ہونے جا رہے ہیں کہ وقت نے یہ عظیم موقع انہیں دیا ہے۔ اور ایک تو ہے جسے نہ دنیا کی پرواہ رہی ہے نہ دین کی کتنی بڑی بد قسمتی ہے یہ؟ بس بہت ہو گیا میں ہر کسی کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتی اور نہ ہی دنیا کی طنزیہ باتیں سن سکتی ہوں۔ میں خود ہی راکھ ڈال کر اپنی ممتا پر نوحی خوانی کر لیتی ہوں؟ یکلخت جیسے پتھر میں دراڑ پڑی ہو۔ اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور مجھ سے لپٹ گیا۔ روتے روتے پوچھنے لگا حکم کریں ماں جی جو آپ چاہیں گی میں وہی کروں گا؟
میں نے جواب دیا کہ محمد علی جناح کی پکار پر لبیک کہو “”اگر تو شہید ہو گئے تو تم زندہ رہو گے اور میں زندہ بیٹے کی ماں بن کر نئی زندگی پاؤں گی “” اور اگر غازی بن کر لوٹے تو میں سینے سے لگا کر ماتھے کو چوموں گی ۔ اور اگر ان دونوں صورتوں میں سے کوئی ایک صورت بھی تمہیں قبول نہیں تو میں تم سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتی۔ بیٹے نے مجھ سے معافی مانگی اور دوسرے ہی روز وہ فوج میں تربیتی کورس میں شامل ہوگیا۔ اس وقت متحدہ ہندوستان میں قتل گری کا دور عروج پر تھا ۔ دن رات ایک دوسرے کے سکھ میں دکھ میں شامل ہونے والے ایک دوسرے سے یوں انجان بن گئے کہ گویا پہچانتے ہی نہیں۔ لاکھوں لوگ شہید ہوئے لوٹ مار کا بازار گرم ہوا بچے دنیا مں آنے سے پہلے مار دیے گئے ۔ قیام پاکستان کے دن میرے ایک نہیں دو نہیں تین تین بیٹوں کی لاشیں گھر پہنچیں ۔ بڑے بیٹے کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے؟
میرے شیر جوان بیٹے سینوں پے لگے زخموں کے نشانوں سے مجھے سرخرو کر گئے کہ وہ میدان سے بھاگے نہیں تھے بلکہ ڈٹ کر سینے پے زخم کھا کر شہید ہوئے ہیں۔۔ میرے شوہر بھی آبدیدہ تھے مگر میں اپنے اللہ کے حضور سر بسجدہ ہو کر اس کا شکر ادا کرنے لگی۔ کہ اس نے مجھے آج سرخروکر دیا میری تربیت پر “” بہترین “” کی مہر لگا دی۔ میں نے اپنے رب سے کہا یا اللہ آج ایک ماں تیرے دین کیلئے تعمیر کئے گئے اس ملک کیلئے اپنے تین بیٹوں کو پیش کر چکی۔ مجھ ناچیز کی یہ خدمت اپنے دین کے نام پر کہ اس خطہ کو “” لا الہ الا اللہ”” کے نام پر حاصل کیا ہے۔ اسے رائیگاں نہ جانے دینا۔ ابھی سجدے میں ہی تھی تو چشم تصور نے دیکھا جیسے آسمان سے کوئی نورانی مخلوق نیچے اتر رہی ہے۔ ان کی لاشیں انہوں نے اٹھائی ہوں اور آسمان کی جانب بڑھنے لگے۔ اس منظر کی میں تاب نہ لا سکی اور فرط جزبات سے بیہوش ہو گئی۔ میری بیٹی نجانے کب آئی اور اس نے مجھے زمین پر گرنے سے بچا لیا وہ خوشی سے رو رہی تھی۔
اور مجھے بتا رہی تھی کہ اماں ہم آزاد ہو گئے اماں پاکستان بن گیا ماں یہ تیرے بیٹوں کلمے خون سے لکھا ہوا کلمہ ہے جو پاکستان کا عنوان بن گیا۔ وہ سکھ خاندان جس کی بیٹی سے میرا بیٹا شادی کرنا چاہتا تھا اسکا خاندان ہمارے علاقے سے نقل مکانی کر گیا۔ امر جیگت ان کے ساتھ نہیں گئ کہیں چھپ گئی تھی ان کے جانے کے بعد وہ ہمارے گھر آگئی وہ بضد تھی کہ ہمارے ساتھ رہے گی۔ ہم نے اسے بہت سمجھایا اور پیشکش کی کہ ابھی وہ لوگ زیادہ دور نہیں ہیں اسےاسکے خاندان والوں تک پہنچا دیتے ہیں ۔ مگر اس کا اصرار تھا کہ اسے اسلام قبول کرنا ہے یوں وہ “”امر جیت”” سے “”حرا جان”” بن گئی اور ہمارے گھر میں ہماری بیٹی بن کے رہنے لگی۔ اسی دوران میری بیٹی کو اللہ نے 4 بیٹے عطا کئے۔
وہ اپنے بچوں کی طرف سے پریشان رہتی تھی اکثر مجھے کہتی کہ اماں آپکو تو میں نے سمجھا دیا مگر اب خود پریشان ہوں کہ ان بچوں کی تربیت کیسے کروں یہ بہت لاپرواہ ہیں ۔ بڑے بیٹےکی بچپن کی منگیتر کی شادی اسکی گمشدگی سے مایوس ہو کر کہیں اور کر دی گئی ۔ کئی سال گزر گئے پھر ایک دن میرا بیٹا واپس آیا اس حال میں کہ اس کی ایک ٹانگ نہیں تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر گلے سے لگایا اور ماتھا چوما۔ اس سے پوچھا کہ تم کہاں تھے اتنے سال ؟ اس نے جواب دیا چھوٹے تینوں شہید ہو گئے اور میں شہادت نہیں پا سکا۔ ماں میں نے تجھے شرمندہ نہیں ہونے دیا ہر محاذ پے گیا وہاں لڑا جہاں جہاں ضرورت تھی۔ میں نے آسمان کی جانب نگاہ اٹھائی اور اپنے رب کی قدرت پر حیران رہ گئی کہ یہ سب کیا تھا؟ اپنے شوہر سے بات کی کہ اب تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے اس لئے میں”” حِرا جان”” سے اسکی شادی کرنا چاہتی ہوں۔
میرا بیٹا بولا کہ میں ادھورا انسان ہوں کسی کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا میں اب شادی نہیں کروں گا۔ حِرا جان نےاس کی بات سنی اور بولی “”جس وطن پر آپ خود قربان نہ ہوئے مگر اپنی ٹانگ قربان کر دی آپ نے جو وعدہ کیا اس کو پورا کیا آپ مکمل انسان ہیں “” “”میں آپکو صِدق دل سے قبول کرتی ہوں کہ میرے بطن سے پیدا ہونے والے بچے غازی کے بچے کہلائیں گے شہیدوں کے ورثاء بنیں گے”” “” اس سے بڑھ کر کوئی فخر ہو سکتا ہے کسی عورت کیلیۓ؟”” حِرا کی شادی میرے بڑے بیٹے سے ہو گئی اُس دن میرے بیٹے نے کہا “” ماں میں نے تجھے راضی کیا تو اللہ مجھ سے راضی ہوگیا”” کیسے اللہ نے خوش ہو کر سب واپس لوٹا دیا۔ یہ کہانی کا پہلا حصہ تھا اب دوسرا حصہ پڑہیں وہ بھی قابل غور ہے۔
میری بیٹی محب الوطن پاکستانی تھی۔ اس نے قیام پاکستان کو خود دیکھا ہوا تھا وہ قدر جانتی تھی مگر اس کے بیٹوں کو ہر نعمت آزادی سمیت بغیر جدو جہد کے ملی تھیں ان کا رویہ اس کے برعکس تھا ۔ اس کے بیٹے انتہائی لاپرواہ نالائق تھے۔ اس نے بہت کوشش کی کسی طرح ان بچوں کی اچھی تربیت کر سکے مگر وہ ہاتھوں سے نکلتے ہی چلے جا رہے تھے۔ اسی دوران بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کیا اور رات کو لاہور پر حملہ کر دیا۔ یوں شروع ہوئی 1965 کی جنگ جب بھارت کو پاکستانی افواج نے ہی نہیں بلکہ عوام نے تاریخی ہزیمت سے دوچار کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا جب پوری قوم جاگ اٹھی تب میری بیٹی نے سوچ لیا کہ مجھے اپنے بیٹوں سے اپنی ماں کی طرح ممتا سے جیتنا ہے۔ اس نے اپنےبچوں سے کہا نکلو اور قوم کے ساتھ جا کر رضاکارانہ کام کرو۔ افواج پاکستان کا ساتھ دو۔
بچوں نے یوں نظر انداز کیا گویا جنگ ان کے ملک میں نہیں ہمسایہ ملک میں ہو رہی ہے۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔
سب لوگ فوج کی مدد کیلئے ٹولیوں کی صورت قریبی گاؤں روانہ ہو رہے تھے سامان خورد و نوش اور دیگر امدادی سامان کے ہمراہ تا کہ دشمن کو چھٹی کا دودھ یاد دلائیں ۔ محلے سے گروپ روانہ ہونے لگا تو میری بیٹی نے سر پے سفید چادر باندھی اور کلہاڑی اٹھا کر دروازے کی طرف بڑہی ۔ بیٹے پریشان ہوئے اور ماں سے پوچھا کہاں جا رہی ہو؟ ماں نے دروازے سے نکلتے ہوئے کلائی سے اپنی چوڑیاں اتار کر ان کی جانب اچھال کر کہا یہ لو پہنو میں شہیدوں کے خاندان سے ہوں مجھے وطن کی پکار پر جان دینی ہے یوں میری بیٹی محلے کے دیگر لوگوں کے ساتھ تن تنہا اُس گاؤں کی جانب روانہ ہوئی جہاں حملہ ہوا تھا ۔ وہاں پہنچی تو کیا دیکھتی ہے کہ اس کے تینوں بڑے بیٹے ہاتھوں میں ڈنڈے کلہاڑیاں تھامے لوگوں کے ساتھ دشمنوں کو تلاش کر رہے تھے ۔ وہ بھارتی سورما ان ننھے مجاہدوں کےخوف سے تھر تھر کانپتے نجانے کہاں چھپ گئے۔ تینوں بیٹوں نے جب اپنے درمیان اپنی ماں کو دیکھا تو فرط جزبات سے نعرہ بلند کیا
اللہ اکبر
اللہ اکبر
اللہ اکبر
ان کی ماں کی آنکھوں میں انسو آگئے کہ وہ آج تاریخ میں ماں کی طرح سرخرو ہوگئی ۔ ایک بزرگ نے آگے بڑھتے ہوئے اس کے سر پے ہاتھ رکھ کر کہا بیٹی یہ وہ وطن ہے جس کے بیٹے بیٹیاں مجاہد ہیں خواہ وہ 5 سال کے ہیں یا 50 سال کے۔ جو وطن لاکھوں جانیں قربان کر کے ہزاروں عِصمتیں لُٹا کرحاصل کیا گیا ہو اُس کی حفاظت سے بھلا کوئی لاپرواہ کیسے ہو سکتا ہے؟ قیامت تک اللہ تعالیٰ اس ملک کا حامی و ناصر ہے۔ یہ زندہ رہنے کیلیۓ قیام میں آیا ہے اور ہمیشہ اسے زندہ باد رہنا ہے ۔
ممتا کا فخر اپنی تربیت پر اطمینان پر اللہ کا شکر مسکراہٹ کی صورت بیٹی کے لبوں پر نمایاں ہو گیا۔
نسل در نسل “”حفاظتی ورثہ”” جب تک لہو بن کر رگوں میں دوڑ رہا ہے اے وطن تجھ پے کوئی ٹیڑہی نگاہ اٹھائے یہ کسی کی مجال نہیں ۔ ہمیشہ ہمیشہ زندہ باد میرے پاکستان
زندگی ملی مجھے تیرے وجود سے ہے اے ارضِ پاک
میرے لہو سے تو زرخیز ہوا اور تیرے نام سے میں زندہ
تحریر: شبانہ عامر