تحریر: شاہ بانو میر
کسی ملک کے رہنما اس کا چہرہ مہرہ ہوتے ہیں ان کی چال ڈھال ان کا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا بولنا ہر چیز کو ایک بڑی تعداد لوگوں کی نہ صرف بغور دیکھتی ہے بلکہ ان کو آئیڈئیل مان کر ان کی طرح ہی حرکات و سکنات کرنا پسند کرتے ہیں بہترین قیمتی ملبوسات کروڑوں کی گھڑیاں سلیقے سے جمے ہوئے بال لش لش کرتی چمکتی دمکتی ایسی کار جو شائد اہل وطن نے دیکھی ہی پہلی بار ہو ہر انسان اس گاڑی سے باہر نکلنے والے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہر آنکھ منتظر ہر کان ہمہ تن گوش اور پھر رہنما بولتا ہے تو عام پاکستانی کا دماغ بھک سے اڑ جاتا ہے یہ کون ہے؟ سیاسی رہنما یا کوئی شعبدہ باز؟
منہ سے جھاگ اڑاتا باتیں نہیں مغلظات کا طوفان طنزیہ انداز تخاطب ہاتھوں کو نچا نچا کر لباس سے متضاد شخصیت سامنے دکھائی دیتی ہے؟ پاکستانی سوچتا ہے کیا یہ وہی سیاسی شخصیت ہے جسے وہ پریس کانفرنس میں دیکھتا ہے تو متین و سنجیدہ انسان کا جامہ ہٹا سامنے کون آگیا؟ کسی نوٹنکی کا کردار آپ ہیں یا آپ کا سیاسی حریف آپ دونوں اس مظاہرے سے کیا تاثر دے رہے ہیں ایک عام پاکستانی کوکیا دکھا رہے ہیں؟ نتیجہ ایک کے حق میں اور ایک کے خلاف آنا ہے رہنا بھی اسی لاہور میں ہے پھر یہ مصنوعی سیاسی محاذ آرائی کیوں؟
تبدیلی کے نام پروہی روایتی سیاست اور وہی پرانے آزمودہ گھٹیا آزمائے ہوئے حربے آزمائے جا رہے ہیں سیاسی تماشہ عنقریب ختم ہونے والا ہے لیکن اس حلقے میں عرصہ دراز تک اس کے نشانات رہیں گے اخلاقیات کا سبق پڑھانے والے خود اس کا جنازہ نکال کر مزید طاقتورہونا چاہتے اس شور شرابے اور رولے رپے سے ذرا ہٹ کر دور بہت دور کانٹوں اور نوکیلے پتھروں پے مسلسل ڈیوٹی دینے والے اس ملک کے سچے اصلی لعلوں کو سوچیں جو خاموش ہیں اور اس ملک پر قربان ہو رہے ہیں سیاست دانوں نے صرف باتیں کرنی اور شور مچانا ہے
پاک فوج نے خاموشی سے خود کو قربان کرنا ہے اس زمین کو گلرنگ کر کے خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر مسکراتے ہوئے اس جہان کو جوانی میں الوداع کہہ دیتے ہیں یا جو ہاتھ میں اپنی کٹی ہوئی ٹانگ پکڑ کر سیلفی بناتے ہیں صرف اس فخریہ احساس کے ساتھ کہ یہ ٹانگ وطن کی حفاظت میں کٹی فیصلہ کرنا ہے کہ آخر ہمارے ہیرو کون ہیں؟ سیاسی شعبدہ باز یا ہمارے جانباز جواب دیجیئے ہیرو کون؟
تحریر: شاہ بانو میر