پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے 5 اکتوبر کی شام ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک روز قبل ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ جاری نہ کیے جانے پر بہت ہی معنی خیز انداز اور لہجے میں یہ بات کہی کہ ’’خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے‘‘۔ گویا اس خاموش زبان کو جو شخص بھی چاہے اپنی عقل وفہم کے مطابق کوئی بھی معنی پہنادے۔ یہ کام انھوں نے بیس کروڑ عوام کی مرضی اور صوابدید پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جو چاہیں اس کا مطلب نکال لیں۔
3 اکتوبر کو ہونے والی اس اہم کور کمانڈر کانفرنس کو ’’اسپیشل کانفرنس‘‘ کا نام دیا گیا تھا، جہاں سات گھنٹوں تک تمام اہم دفاعی، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر غور کیا گیا اور بہت ممکن ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال بھی زیر غور آئی ہوگی۔ اگرچہ آصف غفور نے یہ بتانے سے حتی المقدور اجتناب اور گریز کیا۔
اعلامیہ جاری نہ کرنے پر ان کا یہ کہنا کہ خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے ہمارے میڈیا اینکروں کے لیے سرشام روزانہ اپنی اپنی دکان سجانے اور ایک نیا چورن بیچنے کے لیے وافر سامان فراہم کرگیا۔ اچانک تبدیل ہونے والی سیاسی صورتحال نے ساری قوم کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرکے رکھا ہوا ہے۔ ان خدشات کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ جمہوریت کا یہ ناتواں پودا شاید اپنی اس نئی زندگی کے دس برس بھی پورے نہ کرپائے۔ اس کے لیے اگر ہم شیخ رشید کی پیش گوئیوں کو خیال خاطر میں بھی نہ لائیں تو پھر بھی قوم کو یہ خدشہ ضرور لاحق ہے کہ اندرون خانہ کوئی نہ کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔
پاکستانی سیاست کی ستر سالہ تاریخ پر اگر نظر دوڑائیں تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے یہاں طاقت اور اختیارات کا منبع عوام ہرگز نہیں۔ یہاں اقتدار کے سب سے اہم منصب پر فائز شخص بھی اتنا بے بس و لاچار ہے کہ نادیدہ قوتیں اگر اس سے ناراض اور نالاں ہوجائیں تو وہ خود کو ان کے عتاب سے کسی طور بچا نہیں سکتا۔ اداروں کے درمیان محاذ آرائی سے نقصان صرف جمہوریت کا اور ووٹوں سے منتخب وزیراعظموں کا ہی ہوا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے 9 سالہ آمرانہ دور کے بعد جمہوریت نے جب ایک نئے جنم کے ساتھ زندگی کا سفر شروع کیا تو ایسا لگ رہا تھا کہ اب شاید اب اس ملک کا کوئی موسم خزاں اسے تباہ وبرباد نہیں کرسکے گا۔ اداروں نے وقت کے ساتھ ساتھ کچھ سبق سیکھا ہوگا۔ لیکن حالات آج جس تیزی کے ساتھ ابتر ہوتے جارہے ہیں وہ کسی نہ کسی نئے حادثہ کو جنم دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔
میاں صاحب چونکہ تیسری مرتبہ اپنے دور اقتدار سے قبل از وقت محروم کیے جاچکے ہیں، اس لیے ان کا غصہ اور تشویش ایک لازمی امر ہے۔ بس یہی کہ وہ پابند سلاسل کردیے جائیں۔ اور ذہنی طور پر وہ خود کو اس کے لیے تیار کرچکے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اختیارات کی حامل قوتیں اب کوئی نیا ’’شہید بھٹو‘‘ پیدا نہیں کرنا چاہیں گی۔ اس لیے پھانسی کی سزا تو انھیں دی نہیں جاسکتی اور حالات زمینی حقائق اب اس طرح کے بھی نہیں رہے لوگ مارشل لاء کو باآسانی ہنسی خوشی قبول کرلیں گے۔
اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو عوام الناس کی جانب سے شدید ردعمل کا احتمال اور امکان ضرور پایا جارہا ہے۔ اسی لیے مارشل لاء سے ہٹ کر کسی نئے فارمولے کو آزمانے کی تیاری ہورہی ہے۔ میاں صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ موجودہ جمہوری سسٹم کی موجودگی میں ان کی مخالف قوتیں انھیں جیل بھیجتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ اور تذبذب کا شکار ہیں۔ کیونکہ ہمارے یہاں جو سیاسی رہنما جیل بھیج دیا جاتا ہے وہ نہ صرف نڈر اور دلیر ہوجاتا ہے بلکہ مظلوم اور معصوم قرار پاکر ہیرو بھی بن جاتا ہے۔
نواز شریف تو ویسے بھی ابھی تک ایک مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں۔ سال بھر کی عدالتی کارروائیاں اور الزام تراشیاں بھی ان کی مقبولیت پر کوئی ضرب نہیں لگا پائیں۔ پاناما کیس کے بجائے دبئی کے اقامے پر ان کی نااہلی نے انھیں عوام کی نظروں میں گرایا تو نہیں بلکہ خود عدلیہ کی ساکھ اور عزت کو مجروح کیا ہے۔
پاکستان کے سیاسی افق پر اس وقت اضطراب اور بے یقینی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، کسی کو پتہ نہیں مطلع کب صاف ہوگا، اداروں کے درمیان کشیدگی کیا رنگ لائے گی۔ جو قوتیں میاں صاحب کو سبق سکھانے پر تلی ہوئی ہیں انھیں ملک کی معیشت کی زبوں حالی کو بھی دیکھنا ہوگا۔ جب سے ہمارے ملک میں یہ سیاسی بحران آیا ہے ملک کی معاشی اور اقتصادی حالت مسلسل روبہ زوال ہے۔ یہ سلسلہ اگر یونہی کچھ اور مہینے چلتا رہا تو کوئی بعید نہیں کہ ہم بہت جلد ڈیفالٹ کردیے جائیں۔
زرمبادلہ کے ذخائر جو گزشتہ برس 24 ارب تک پہنچ گئے تھے اب 19 ارب تک گر چکے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ جو تیزی سے ابھرتی ہوئی مارکیٹ کا درجہ حاصل کرنے والی تھی اب ایک بار پھر انحطاط پذیری کا شکار ہے۔ ہم نے اس سال آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیا تھا، اگر حالات یونہی دگرگوں ہوتے رہے تو کل ہمیں ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے ایک بار پھر امداد کی بھیک مانگنی پڑے گی اور اس کا خمیازہ ساری قوم ادا کرے گی۔ ایسی صورت میں کوئی ملک ہمارے یہاں سرمایہ کاری کے لیے آگے نہیں بڑھے گا۔
سی پیک کے ذریعے خوشحالی حاصل کرنے کے جو خواب ہم نے اپنی آنکھوں میں سجائے تھے، وہ سارے کے سارے چکناچور ہوکر ہمارے دشمنوں کے لیے خوشی اور مسرت کا باعث بن جائیں گے۔ دبئی کے اقامہ حاصل کرنا، میاں صاحب کا یہ قصور کیا اتنا ہی بڑا تھا کہ اگلے الیکشن تک انتظار نہیں کیا جاسکتا تھا، انھیں آج ہی سزا دینا ضروری تھا۔ اگر پاناما کیس میں الزامات اور شواہد اتنے ہی ٹھوس تھے تو فیصلہ اس اقامے پر کیوں دیا گیا جس کا پٹیشن میں ذکر ہی نہ تھا۔
اگر عدالت کو جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتیجے میں میاں صاحب کے کچھ سنگین جرائم کا پتہ چلا تھا تو فیصلہ بھی اسی پر دیا جاتا۔ یا کم از کم یہی بتادیا جاتا انھوں نے اپنے دور اقتدار میں کون کون سی بڑی کرپشن اور مالی بدعنوانیاں کیں۔ ملک میں امن وامان قائم کرنا، دہشت گردی کے خلاف موثر اقدام کرنا، معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالنا، سی پیک منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھانا، سارے ملک میں انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانا اور کراچی شہر میں عرصے سے جاری بدامنی کو قابو کرنا کیا اتنے ہی سنگین جرائم تھے کہ چند مہینے نہیں رکا جاسکتا تھا اور انھیں پیپلزپارٹی کی طرح الیکشن میں عوام کے ووٹوں ہی سے شکست فاش دے کر گھر بھیج دیا جاتا۔
اب بھی وقت ہے، خدارا اس ملک وقوم پر رحم کیا جائے۔ ہر چند سال بعد یہ سیاسی اتھل پتھل ملک و قوم کے ساتھ ایک سنگین زیادتی اور سفاکی کے مترادف ہے۔ ہم جیسے تیسے تگ و دو کرکے ملک کو ترقی و خوشحالی کی جانب آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں کہ پھر اچانک دانستہ و غیر دانستہ طور پر کی جانی والی کوئی غلطی ہمیں کئی سال کے لیے واپس پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ یہ سلسلہ آخر کب تک یونہی چلتا رہے گا۔ اختیارات کی حامل اصل قوتوں کو اپنے اس طرز عمل پر نہ صرف غور کرنا ہوگا بلکہ اسے بدلنا بھی ہوگا۔ ہم اپنی قوم کو غیروں کی غلامی، کاسہ لیسی اور دریوزہ گری پر مجبور کرکے بھلا کب تک انھیں اندھیروں کی طرف دھکیلتے رہیں گے۔