counter easy hit

خادم اعلی ایک نجی محفل میں

وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف سے جو خادم اعلیٰ کے طور پر معروف ہیں ، اکثر ملاقات لاہور میں ہمارے دیرینہ خاندانی دوست اور عزیز کیپٹن شاہین خالد بٹ کی رہائشگاہ پر ہوتی ہے۔ شاہین بٹ آجکل اوورسیز کمیشن پنجاب کے وائس چئیرمین ہیں۔ میاں شہباز شریف کے دوست ہونے کے ناطے اپنی دوستی کا اظہار نجی محافل کی صورت میں کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا تعلق بھی میاں شہباز شریف سے جلا وطنی کے دور سے چلا آرہا ہے۔ محفل میں خادم اعلی کے نجی اوصاف کو ہائی لائٹ کیا جا رہا تھا۔ سینئر صحافی بھی موجود تھے۔ مجیب الرحمان شامی نے سچ کہا کہ حکمران پارٹی کی تعریف مشکل کام ہے لیکن حکمران پارٹی کے اچھے کاموں یا عادات کو نہ سراہنا بد دیانتی ہے۔ اس پر عطا الحق قاسمی نے برملا اعتراف کیا کہ وہ شریف برادران کو پسند کرتے ہیں اور اس کو خوشامد کا نام دیا جائے یا محبت کہا جائے وہ شریف برادران کی تعریف میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ سولہ دسمبر کے روز منعقد کی گئی اس نجی محفل کا تمام رخ دو المناک واقعات کی جانب مڑ گیا جب کیپٹن شاہین بٹ نے گفتگو کا آغاز سقوط ڈھاکہ اور پشاور آرمی سکول کے سانحات سے کیا۔ معززین نے واقعات پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا جبکہ پنجاب سے نئی ابھرتی آواز عائشہ رحمان نے ( اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے )جیسے نغمات سنا کر محفل میں جوش و ولولہ پیدا کر دیا۔ یہ محفل جس دوست کے اعزاز میں سجائی گئی یعنی میاں شہباز شریف وہ 1950ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ شہباز شریف 20 فروری1997ء سے 12 اکتوبر 1999ء تک بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔ 1999ء میں پرویز مشرف کے حکومت پر قبضہ کر لینے کے بعد وہ سعودی عرب میں جلا وطن رہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو پاکستان میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ شہباز شریف بھی قید میں رہے۔ بعد ازاں انہیں سعودی عرب جلا وطن کر دیا گیا۔ حکومت کے مطابق یہ ایک معاہدہ کے تحت ہوا مگر اس سے شریف خاندان انکار کرتا ہے ۔لاہور ہائی کورٹ نے جب فیصلہ دیا کہ وہ پاکستان آنے میں آزاد ہیں تو انہوں نے 11 مئی 2004ء کو پاکستان واپس آنے کی کوشش کی مگر لاہور کے علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈے (علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ) پر انہیں گرفتار کر کے واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ سعودی عرب سے پھر وہ برطانیہ کے دار الحکومت لندن چلے گئے ہیں اور وہاں سے سیاست کرتے رہے۔ اس کے بعد وہ نواز شریف کے ساتھ لندن منتقل ہو گئے۔سعودی عرب میں قیام کے دوران 3 اگست 2002ء کو پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کا صدر چنا گیا۔ 2 اگست 2006ء کو انہیں دوبارہ اگلی مدت کے لیے چنا گیا۔میاں محمد شہباز شریف 20 فروری 1997ء سے 12 اکتوبر1999ء تک پنجاب کے وزیر اعلی رہے۔ ان کا دور نہائت سخت انتظام کے لیے مشہور ہے جس میں انہوں نے لاہور کی شکل بدلنے کی کوشش کی۔ خصوصاً ناجائز تجاوزات میں سے بیشمار کو ختم کیا۔ انہوں نے پنجاب کے ایسے اسکولوں کے خلاف بھی اقدام اٹھائے جو عرف عام میں بھوت اسکول یا گھوسٹ اسکول کہلاتے ہیں یعنی وسائل استعمال کرتے ہیں مگر وہاں اساتذہ نہیں ہوتے یا سرے سے اسکول ہی نہیں ہوتا۔ انہوں نے ڈھائی سال کے دوران اقربا پروری اور سفارش کے خلاف بھی نمایاں کارکردگی دکھائی اور بوٹی مافیا کے خلاف کام کیا۔ اپنے دور کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے۔ اور اس دوران پورے پنجاب میں کوئی نئی گاڑی نہیں خریدی گئی۔ پولیس میں پہلی دفعہ پڑھے لکھے جوان لڑکوں کی بھرتی میرٹ کی بنیاد پر کی گئی۔ فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد ضمنی انتخاب میں جیت کر دوبارہ صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ مئی2013ء کے انتخابات کے بعد آپ پھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہیں۔میاں شہباز شریف کی سیاسی زندگی کا برا واقعہ ماڈل ٹائون کا ہے۔انقلاب مارچ کے دوران پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مداخلت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شہید ہونے والے 14 افراد کے قتل اور 90 سے زائد کے شدید زخمی ہونے والوں کو انصاف دلانے کیلئے وزیراعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف سمیت 9 افراد کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی۔شاہین بٹ کی نجی محفل میں میاں شہباز شریف نے گفتگو میں کہا کہ انڈیا اور پاکستان ایک ہی وقت میں آزاد ہوئے لیکن بھارت ترقی کر گیا۔ اس کی وجہ گاندھی ہے۔ گاندھی آزادی کے بعد چودہ سال زندہ رہے اور ملک کو ایک نظام دے گئے جبکہ پاکستان کو بابائے قوم محمد علی جناح یتیم چھو ڑ گئے۔ خدا چند برس بھی مہلت دے دیتا تو جناح بھی پاکستان کو پیروں پر کھڑا کر جاتے۔ ہماری بد نصیبی کہ قائد اعظم کو مہلت نہْ مل سکی اور قائد اعظم کے بعد اس مملکت خداداد کو کوئی ان جیسا لیڈر نہ مل سکا۔ میاں شہباز شریف کی تمام گفتگو کا خلاصہ اس ایک سنہری جملے میں پنہاں ہے کہ ہاکستان کو پھر کوئی قائد اعظم نہ مل سکا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website