تحریر : احمد سعید
”ایف اے آنرز” کے سالانہ پیپر ختم ہوئے تو میں ہائیر ایجوکیشن کیلئے فرانس جانے کا سوچنے لگا۔ حالانکہ رزلٹ تک صرف یہ سوچنا چاہیے تھا کہ میں پاس بھی ہوجاؤں گا کہ نہیں۔ اور اگر پاس ہوجاؤں گا تو کیسے؟ ”ایف اے آنرز شروع میں اِس لئے لکھا کہ BA بھی جب تین سال کاہو تو آنرز ہوجاتا ہے۔ ویسے تو ایف اے تین سال کا پاکستان میں نہیں تھا لیکن میں نے سپلیاں لے کر اِسے 3 سال میں کنورٹ (منتقل) کرلیا تھا۔ سب سے پہلے ابا جی کو میں نے اپنے عزائم سے آگاہ کیا کہ میں ہائر ایجوکیشن کیلئے بھائی کے پاس فرانس جانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بہت خوب تم ایم اے کرلو اور پھر ہائیرایجوکیشن کیلئے چلے جانا۔ میں نے کہا جی کہ میں ابھی جانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد کونسی ہائیر ایجوکیشن۔ میں نے کہا کہ اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔ انہوں نے مجھے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ پہلے میں تمہاری سوچیں نہ درست کردوں؟ خیر میں نے کہا :، آپ ہائیر کونکال دیں لیکن ایجوکیشن کے لئے تو جانے دیں۔ کہنے لگے ،رزلٹ آنے دو پھر دیکھتے ہیں۔ دِل نے کہا :،پھر کیا دیکھنا فرانس، آپ نے پاکستان نہیں دیکھنے دینا۔ ایک صبح میں اٹھا تو گھر میں امریکہ کی باتیں کانوں میں پڑیں۔ میں نے امی جان سے جا کر پوچھا کہ امریکہ کہاں سے آگیا بیچ میں؟ میں تو سارا دِن فرانس فرانس کرتا ہوں۔ وہ کہنے لگیں، تمہارے چچا اور اُن کی فیملی امریکہ سے آرہے ہیں، اور ان کو تم نے لے کر گھومنا پھرنا ہے۔ میں نے کہا کہ جون ، جولائی کے مہینوں میں پیدل اُن کو لے کر گھومنا پھرنا ہے؟
کہنے لگیں :، اپنے ابو سے باقی باتیں پوچھ لو۔
ابا جی کہنے لگے :، گاڑی کرائے پہ لینی ہے اور تم نے چلانی ہے۔
یہ سن کرکے میں نے چلانی ہے ،مجھے لگا کہ میں فرانس ہی پہنچ گیاہوں۔ بلکہ امریکہ سے گھومتا ہوا فرانس پہنچا۔ گاڑی چلانی مجھے اب آگئی تھی۔ بس پیچھے کرنی اور گھر کے گیراج میں کھڑی کرنی نہیں آتی تھی۔ سیدھی سیدھی میں بہت اچھی چلا لیتا تھا ،بس ذرا ٹریفک زیادہ نہ ہو تو، بلکہ بالکل ہی نہ ہو تو پھر تو میں کیا ڈرائیونگ کرتا تھا۔ بس میں خود کو دیکھتارہ جا تاتھا کہ کیا ہاتھ سیٹ بیٹھا ہے گاڑی پر۔ زیادہ ٹریفک میں بھی میں دیکھتا رہ جاتا تھا کہ ”اے ہو کی رہیااے” گاڑی رینٹ پہ لینے کی ذمہ داری ایک کزن کو سونپی گئی۔ میں گاڑی لے کر آیا ،رستے میں دو تین بار بند ہوئی ایک بار خود ہی چل پڑی تو دوسری بار مکینک کے ہاتھوں چلی ،یعنی مکینک کو بلانا پڑا۔ کزن کو میںنے فون پر بتایا تو وہ کہنے لگے یار! بیٹری ہی صرف خراب ہے نا ۔اور وہ بھی تقریباً یعنی ساری تو نہیں۔ اگر کبھی کبھار تنگ کی تو دھکا لگا لینا ورنہ جابجا میکنک تو ہیں ہی۔ ایسے ہی میں نے ابا جی کو بتادیا کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں گاڑی میں۔ابا جی کہنے لگے کہ اِس مسئلہ (گاڑی) کو گھر نہ لے کر آنا۔ فوری واپس کرکے آؤ۔ میں نے کہا کہ رات کو چچا جان آرہے ہیں صبح اِسے واپس کرکے کوئی اور لے لیں گے۔
انھوں نے ایک نہ سنی بلکہ مجھے اچھی خاصی سنا دیں۔ میں نے گاڑی واپس کی اور گاڑی خود ڈھونڈنے کا ارادہ کرلیا ،کیونکہ مجھے نظر آرہا تھاکہ ڈرائیونگ میرے ہاتھ سے جارہی ہے۔ایک رینٹ اے کار والا کچھ جاننے والا محسوس ہوتا تھا۔ اُسنے چھوٹی سی گاڑی دے دی کہ گیس کم کھائے گی۔ میرے لیے چھوٹی کار زیادہ کار آمد تھی۔ڈرائیونگ کا ایکسپرٹ جو بہت تھا( اپنی نظروں میں)۔ انکل اپنی فیملی کیساتھ رات کو آئے۔ رات تک میں نے بھی اُس گاڑی پہ اچھے خاصے ہاتھ صاف (سیدھے) کرلیے تھے۔ انکل گاڑی کو دیکھ کر کہنے لگے کہ اِس سے چھوٹی گاڑی نہیں ملی؟ میں نے کہا انکل اِس سے چھوٹی گاڑی پاکستان میں ابھی آئی نہیں۔ حیرانگی سے مجھے دیکھا اور کہنے لگے کہ یعنی اگر ہوتی تو تم نے لے آنی تھی، اِس کی جگہ وہ۔ میںنے کہا کہ انکل یہ گاڑی ”کم خرچ بالانشیں ہے” ہنس کر کہنے لگے کہ چلو صبح دیکھتے ہیں کیا کرتی ہے یہ گاڑی ہمارے ساتھ؟ یقینا اُن کا مطلب یہی تھا کہ تم ہمارے ساتھ کیا کرتے ہو؟ جون کا مہینہ تھا۔ اُس سال گرمی نے دس سالہ گرمیوں کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔ صبح ہوتے ہی آنٹی نے مجھ سے پوچھا کہ اِس کا اے سی (ائیر کنڈیشنر) بھی صحیح کام کرتا ہے کہ نہیں؟
میں نے کہا ،اِس کا ہیٹر بھی چلتا ہے۔ کہنے لگیں:” ہیٹر کہاںسے آگیا بیچ میں۔ ” میں نے کہا، ایسے ہی گاڑی کے کار ہائے نمایاں بیان کررہا ہوں۔ کہنے لگیں، گاڑی کیا کوئی ریسنگ چیمپئن شپ جیت کے آئی ہے۔ میں نے دِل میں سوچا کہ میں نے کل سارا دِن چلائی ہے اور یہ پوری صحیح سلامت بچ کے آئی ہے، اور کیا چیمپئن شپ جیتے گی؟ خیر انکل آنٹی کو رشتہ داروں کی طرف لے کر نکل پڑا۔ فوری طور پر اے سی چلایا اور بتایا کہ اس کا اے سی بہت اچھا ہے۔ رات بڑی ٹھنڈی ہوا دے رہا تھا۔ انکل کہنے لگے کہ رات کو چھت پہ پنکھا بھی ٹھنڈی ہوا دیتا ہے۔ میں نے سوچا انکل شاید امریکہ سے محکمہ موسمیات کا کورس کرکے آئیں ہیں۔ آنٹی کہنے لگیں، ابھی تک ٹھنڈ نہیں ہوئی گاڑی میں، میں نے کہا کہ بڑی روڈ پر چڑھیں گے تو ٹھنڈ کریگی۔ کہنے لگیں ، چھوٹی روڈ پہ کیا کِیا کرے گی؟ میں نے کہا، جی تھوڑی تھوڑی ٹھنڈ، خیر بڑی روڈ بھی آگئی پر ٹھنڈ نہیں آئی۔ کہنے لگیں کہ اس گاڑی کو فوری واپس کرو۔ مجھے یقین ہوگیا کہ گاڑی تو گئی سو گئی پر ڈرائیور بھی گیا اب کے۔آہستہ سے ڈرتے ڈرتے میں نے پوچھا کہ گاڑی میں بڑی لے آتا ہوں۔ کہنے لگیں ، ہاں بالکل جلدی سے کوئی اچھی گاڑی کا بندوبست کرو۔
میری جان میں جان آئی کہ ڈرائیونگ ابھی بھی داؤ پہ ہے، پر بچ گئی ہے۔
اب کے میں نئی اور بڑی گاڑی لانے میں کامیاب ہوگیا تھا ،پر ابھی صحیح چلانے میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ دو تین دن گاڑی سلو سپیڈ پہ ہی چلاتا رہا، بھئی اپنی عزت اور گاڑی اپنے ہاتھ میں ہی اچھی لگتی ہے۔ ایک دِن آنئی ابو کو کہنے لگیں:، بھائی جی ، احمد گاڑی بہت اچھی چلاتا ہے۔ اب میں خوشی کی بجائے پریشان ہوگیا کہ ابا جی یہ نہ فرما دیں کہ ابھی تو یہ چلانا سیکھ رہا ہے اور آپ نے بہت اچھی چلانے کا سرٹیفکیٹ بھی دے دیا۔ تھوڑا سا مسکرانے کے بعد ابا جی خاموش ہی رہے، خیر پندرہ دن اِسی طرح آہستہ آہستہ چلا کر اپنی عزت اور ڈرائیونگ بچاتا رہا اور وہ واپس امریکہ چلے گئے یہ کہتے ہوئے کہ ایسی ڈرائیونگ ہم نے کہیں نہیں دیکھی۔ اور مجھے لگا کہ مجھے پندرہ دِنوں میں امریکہ کا ڈرائیونگ لائسنس مِل گیا ہے۔ فرانس میں ہائیرایجوکیشن کیلئے میں اِسلام آباد نکل گیا۔ وہاں” الیاں دے فانس” جا رکر اپنا مدعا بیان کیاکہ میں نے تین ماہ کا فرنچ کورس ایگرکلچرز یونیورسٹی سیمکمل طور پہ مکمل کرلیا ہے اور انٹرمیڈنٹ بھی بس ہوا ہی سمجھیں۔
وہ کہنے لگے کہ ہمارے لئے کیا حکم ہے؟
میں نے کہا :، آپ میرا کسی فرنچ یونیورسٹی میں ایڈمیشن کروا دیں۔
ریسیپشن پہ کھڑی لڑکا نما لڑکی کہنے لگی کہ فرانس میں تو انگلش میں ایجوکیشن نہیں ہوتی۔ میںنے کہا کہ یہ جو تین ماہ کا فرنچ کورس کیا ہے۔ کہنے لگی: ،اب تین ماہ کی بنیاد پر آپ کو ایڈمیشن نہیں مِل سکتا۔ میرا مشورہ ہے کہ پہلے بی اے ، بی ایس سی کریں کم از کم اور ساتھ ایک سال کا فرنچ کورس۔میں بس تھوڑی دیر خاموشی سے اسے تکتا رہا اور پھر ”بڑے بے آبرو ہو کرتیرے کوچے سے ہم نکلے” خیر یہ بات میں نے کسی کو نہیں بتائی۔ وہ کہتے ہیں نا”بد سے بدنام بُرا ” اب میں نے کہنا شروع کردیا کہ ہایئر ایجوکیشن پاکستان رہ کر ہی کرنی ہے۔ لاہور یا اسلام آباد جاؤں گا۔ بلکہ اسلام آباد جاؤں گا۔ اپنے دوست محمد ملی کے پاس جو” نمل ”یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کررہا ہے۔ اس نے مجھے فون پر بتایا کہ ”بی اے” ماڈرن لینگویجز میں ہورہا ہے اس نے کہا پر ہے چار سال کا۔ میںنے کہا یار چار سال میں تو بندہ تقریباً انجینئر یا ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ یہ چار سال میں صرف بی اے کرائیںگے۔ کہنے لگا یار! دنیا میں انجینئر اور ڈاکٹری کے شعبے ہی نہیں ہیں صرف، اور باہر کے ممالک کے سٹوڈنٹس تو جانے کس کس شعبے میں کیا کیا کررہے ہیں؟ میں نے کہا یعنی”اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا” مسئلہ چار سال کا نہیں تھا ،مسئلہ تو یہ تھا کہ میں چار سال پاکستان ہی رہوں گا۔ خیر ”بی اے” اِن ماڈرن لینگویجز سننے میں بھی ذرا کمال کا ہی لگتا تھا۔
بس میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ کرنا ہے تو ”بیچلر اِن ماڈرن لینگویجز” اور محمد علی کو کہہ دیا کہ داخلہ نہ ہاتھ سے جائے۔ اُس نے کہا کہ مسئلہ ہی کوئی نہیں داخلہ ہاتھ سے نہ جانے دیں گے۔ داخلہ ہاتھ سے کیا نکلنا تھا؟ ڈیٹ ہی ہاتھ سے نکل گئی۔ ڈیٹ وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں ۔میرا مطلب کہ داخلے کی ڈیٹ ہی ہاتھ سے نکل گئی۔ہوا یوں کہ محمد علی نے کہا کہ بس تو آجا اگلے ہفتے داخلہ ہوجائے گا۔ میں اپنے سازوسامان سمیت اگلے ہفتے آگیا اسلام آباد۔ ہاسٹلز کی طرف گیا تو جابجا چینی دکھائی دیں ۔میں نے سوچا:، کبھی امریکہ اور کبھی چین یہ یورپ کہاں رہ گیا ہے؟ خیر محمد علی کے پاس پہنچا۔ تو وہ اپنے دوست کے ساتھ کمپیوٹر کو خراب کرنے پہ تُلا ہوا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی محمد علی کے دوست نے کہا : بھائی آپ یہ کمپیوٹر تو دیکھیں ٹھیک ہی نہیں ہورہا۔میں نے کہا : بھائی میں کمپیوٹروں والا نہیں، علی کا دوست ہوں۔ خیر علی نے کہا :اوئے اسے بیٹھنے تو دے پہلے۔میں نے کہا: پہلے سے کیا مطلب آپکا بھئی بعد میں میرے سے کام ہی کروانے ہیںکیا؟ کہنے لگا کہ صفائی نہیں کرانی یار یہ کمپیوٹر تو دیکھو آواز ہی نہیں آرہی۔ میں نے کہا ، کمپیوٹر تو مسئلہ ہی کوئی نہیں، اگر آج کمپیوٹر ایجاد نہ ہوا ہوتا تو میں نے ہی کرنا تھا۔اُسکا دوست کہنے لگا کہ بس ٹھیک کرد یں۔ میں نے کہا کہ یار بسیں میں ٹھیک نہیں کرتا آپ نے کیا مجھے مکینک سمجھا ہوا ہے؟
محمد علی کے دوست نے محمد علی کو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو: ”اوبھائی یہدوست کہاں سے پکڑ کے لائے ہو”میں نے بھی کمپیوٹر ٹھیک کرنے کیلئے ہر قسم کے ”تُکّے” لگائے۔ بقول خالد مسعود ہم تُکا لگاتے ہیں تو تُکا نہیں چلتااور تیر چلاتے ہیں تو اُکّا نہیں چلتامیرٹ پہ سو بار ٹرائی کیا تو جانایہاں میرٹ بھی تو سُکّا نہیں چلتا پر آج ہمارا تُکّا چل گیا تھا وہ بھی ” سُکّا” وہ مجھے دیکھ کر حیران ،میں انھیں دیکھ کے پریشان، خیر محمد علی کے دوست نے فٹا فٹ کمپیوٹر پہ گانا لگایا، ”اِک پھل مویتے دا مار کے جگا سوہنیے” اور مسلسل دو گھنٹے یہی گانا سنتا رہا اور جبراً سناتا رہا۔ رات کو اس کے ساتھ ٹہلنے باہر نکل پڑے۔ مجھے کہنے لگا : اور کیا مصروفیات ہیں پڑھائی کے علاوہ آپکی؟”شاعری کرتاہوں”۔چونک کے کہنے لگا: اوئے یہ کیا کرتے ہیں آپ؟ ”شاعری کا کہا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ گندی باتیں کرتا ہوں جو آپ اتنا چونک گئے”۔ کہنے لگا :،بہرحال کوئی اور مناسب سا شغل تلاش کریں۔ مجھے اب بلکا سا غصہ چڑھ گیا۔
میں نے کہا :،آپ انگلش میں ایم اے کر رہے ہیں؟ ”جی” ”فیصل آباد گھر بار چھوڑ کر صرف انگلش سیکھنے آگئے ،آپ وہیں کوئی پانچ چھ ماہ کا کورس کرلیتے انگلش کا۔ فیس کتنی ہے آپ کی ”؟ ”کوئی ایک سمیسٹر کی آٹھ، نو ہزار”۔ ”اتنے میں تو چائنا کی دو سائیکل آجاتی ہیں۔ ایک خود چلانا تھا ایک چھوٹے بھائی کو دیتے۔ پھر بھی جیب میں دو تین ہزار بچ ہی جانے تھے۔ اُن پیسوں کی فیصل آباد میں انگلش کی ٹیوشن رکھتے۔ سائیکل پہ مزے پہ جاتے مزے سے آتے۔ زبان سیکھنے کے چکروں میں اسلام آباد ہی آگئے۔ اگر زبان سیکھنے کا اتنا شوق تھا تو پھر امریکہ ہی چلے جاتے۔ پہ اسلام آباد ہے لندن شہر نہیں جہاں ہر کوئی انگلش میں بات کررہا ہوگا اور آپ فر فر انگلش بولنا سیکھ جائیں گے”۔ بس پھر اگلے دو تین دِن اُس نے میرے سے کوئی بات نہیں کی۔ میں نے بھی کہا کہ یہ بات ہے تو پھر کوئی بات نہیں۔
تین دِن ہوچکے تھے مجھے آئے اور محمد علی مجھے صرف حوصلہ ہی دے رہا تھا کہ فکر نہ کرہو جائے گا داخلہ، پر مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ مجھے حوصلہ دیتے ہوئے وہ اپنے آپ کوبھی حوصلہ دے رہا تھا کہ ہوہی جائے گا داخلہ۔ چوتھے دِن میں نے اُسے کہا کہ یار صحیح صحیح بتا دال میں کیا کالا پیلا ہے۔ وہ کہنے لگا دال ہی کالی ہوگئی ہے ساری، میں نے کہا کہ میں سمجھا نہیں۔ کہنے لگا :، ”اے کیہڑا کوئی نوی گل اے” میں نے کہا: پہلیاں نہ بُجھا۔ کہنے لگا :، داخلے کا ٹائم نکل گیا۔ ” تو نے تو کہا تھا کہ آجا بس ہوجائے گا” کہنے لگا یار! پتہ ہی نہیں چلا تیرے آنے پہ ہی پتہ کیا۔ میں نے کہا کہ تو نے کیا کِیا۔ ویسے اندر سے میں تھوڑا مطمئن بھی تھا کیونکہ سارے کا سارا ذمہ محمد علی پہ آگیا تھا۔ ورنہ فارم جمع ہوجاتے تو اتنے نمبروں پہ داخلہ کہاں سے ہونا تھا؟ محمد علی ایڈمنسٹریشن کو جتنا مرضی چیخ چیخ کے بتاتا کہ یہ بڑا اچھا مقرر ہے پاکستان لیول کا، پر انھوں نے صاف منہ پہ ہی کہہ دینا تھا کہ اتنے نمبروں پہ پاکستان لیول چھوڑ کر چاہے ورلڈ لیول کا مقرر ہی کیوں نہ آجاتا، ہم نے اُس کو بھی ایڈمیشن نہیں دینا تھا۔
وہ تومیری عزت رہ گئی کہ ڈیٹ ہی گزر گئی۔ محمد علی میرے سے معذرت کرتا پھرے۔ اور میں بھی تھوڑا بہت ”موڈ ”میں پھروں، کیونکہ ایسے موقعوں پے موڈ میں رہنا ہی اچھا ہوتا ہے ورنہ اُس نے سمجھنا تھا کہ اِدھر بھی دال میں کچھ کالا ہے۔ اور اِدھر بھی دال ساری کالی تھی۔ میں واپس فیصل آباد آگیا اور اباجی کو کہنے لگا کہ اپنا شہر اپنا ہی ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے عظیم ادارے جی سی یونیورسٹی سے ہی ہائیر ایجوکیشن میرا مطلب ہے کہ ایجوکیشن پوری کرنی ہے اور پھر ہائیر ایجوکیشن کیلئے یورپ روانہ ہونا ہے۔ اگلے دِن میں جی سی یونیورسٹی اپنی تمام ڈگریوں سمیت یعنی تعلیمی اور تقریری معرکوں کی ڈگریاں لے کر پہنچ گیا۔ تعلیمی ڈگریوں سے تو معمہ حل نہیں ہونے والا تھا۔
اِس لیے سیدھا ڈرا میٹک سو سائٹی کے انچارج علی عثمان صاحب کے پاس پہنچا۔ اُن کو اپنی تمام تقاریری اسناد دکھائیں۔ ساری اسناد دیکھ کے کہنے لگے کہ آپ نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرلیا ہے؟ میں نے ڈرتے ہوئے کہا: ،جی ہوگیا۔ کہنے لگے :،وہ بھی سند ساتھ لگا دیں اور سنائیں تقریر۔خیر سناد ی تقریر، فوری اُٹھے اور مجھے اپنے ڈیپارٹمنٹ سے باہر لے آئے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ مجھے یونیورسٹی گیٹ کے باہر چھوڑنے جارہے ہیں۔ اور” گارڈوں ”کو تاکید مزید بھی کر دیں گے کہ دوبارہ یہ سٹوڈنٹ اندر نہ داخل ہونے پائے۔ لیکن شاید انھیں رحم آگیا اور انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ مجھے وہ ایک اور ڈیپارٹمنٹ میں لے گئے اور وہاں میرا فارم جمع کروایا۔ یوں میری ہائیر ایجوکیشن شروع ہوگئی۔
تحریر : احمد سعید