ہمارا سماجی ڈھانچہ 70 سال پہلے جیسا تھا اب بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ویسا ہی ہے۔ہماری سیاست ستر سال پہلے جیسی تھی، اب بھی ویسی ہی ہے بلکہ اب وہ مزید پسماندگی کا شکار یوں ہوگئی ہے کہ سیاست میں خاندانی نظام اور زیادہ مستحکم ہو رہا ہے بلکہ چند خاندان حکمرانی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اوراس حق کے لیے قومی اداروں سے کھلی جنگ پر اتر آتے ہیں۔
ہمارا اقتصادی ڈھانچہ انتہائی فرسودہ ہے۔ ہماری غیر سیاسی طاقتیں اس قدر مضبوط اور منظم ہیں کہ ان کی مرضی اور رضا کے بغیر سیاسی گاڑی کا رخ تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے عوام پہلے بھی رعایا بنے ہوئے تھے آج بھی عملاً وہ رعایا ہی بنے ہوئے ہیں، ہماری بیوروکریسی پہلے جن طبقات پر مشتمل تھی آج بھی وہ انھی طبقات پر مشتمل ہے۔
ہماری مڈل کلاس میں پہلے جو جی حضوری تھی آج بھی وہی جی حضوری ہے۔ ہمارے عوام ستر سال پہلے جس طرح کی زندگی گزار رہے تھے اس میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پہلے جہاں کھڑے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہوئے ہیں، ہمارا تعلیمی نصاب پہلے جس طرح کا تھا اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، ہمارا سماجی سیٹ اپ جس طرح کا تھا اس میں بھی کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ ہمارے عوام پہلے جس احساس کمتری کا شکار تھے آج بھی وہ اسی احساس کمتری کے شکار ہیں۔
ہماری اشرافیہ پہلے جتنی طاقتور تھی آج اس سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہماری دیہی زندگی پہلے جس طرح آقا اور غلام میں بٹی ہوئی تھی آج بھی وہ اسی طرح بٹی ہوئی ہے۔ ہمارا انتظامی ڈھانچہ پہلے جن خطوط پر استوار تھا، آج بھی انھی خطوط پر استوار ہے۔ ہمارے غریب طبقات پہلے غربت کو جس طرح اپنا مقدر سمجھتے تھے آج بھی وہ غربت کو اپنا مقدر اور خدا کی مرضی ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارے علما پہلے جو درس دیتے تھے آج بھی وہی درس دے رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساری دنیا ترقی کی شاہراہوں پر تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ہم تنزلی کی اسی منزل پر کھڑے ہیں، جہاں ہم ستر سال پہلے کھڑے تھے ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارے اقتداری ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اقتداری ڈھانچہ ستر سال پہلے جس اشرافیہ پر مشتمل تھا آج بھی اسی اشرافیہ پر مشتمل ہے۔ اس اسٹیٹس کو کو تبدیل کیے بغیر ہم ترقی کی سمت ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عوام دشمن اسٹیٹس کو کو کس طرح توڑا جائے؟ عموماً مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعتیں اس صورتحال میں تبدیلی لاسکتی ہیں لیکن جمہوریت کے نام پر مڈل کلاس کی سیاسی جماعتوں کو اس خوبصورتی سے بے وقوف بنایا گیا ہے کہ وہ جب بھی اقتداری ڈھانچے میں تبدیلی کے امکانات دیکھتے ہیں جمہوریت کی بقا کے نام پر مڈل کلاس پر مشتمل جماعتوں کو آگے لاتے ہیں۔
2014 ء میں عمران خان اور طاہر القادری نے ایک طاقتور تحریک کا آغاز کیا تھا جو اقتداری ڈھانچے میں بڑا سوراخ ڈال سکتا تھا لیکن اقتدار مافیا نے شور مچا دیا کہ جمہوریت خطرے میں ہے پھر یہ ہوا کہ مڈل کلاس کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں آستین چڑھا کر اور سر سے کفن باندھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور جمہوریت کو بچانے کے نام پر اسٹیٹس کو کو بچانے کے لیے پارلیمنٹ میں دھرنا لگا دیا۔
اس دھرنے میں وہ جماعتیں پیش پیش تھیں جو حکمرانوں کے دسترخوان سے مستفید ہو رہی تھیں۔ 2014ء کی تحریک کے روح رواں عمران خان اور طاہر القادری تھے ان میں وہ میچوریٹی نہیں تھی جو ایسے بڑے اور اہم کاموں اور تحریکوں میں درکار ہوتی ہے۔ اس کمزوری کا فائدہ حکمران طبقات نے اٹھایا اور ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئے۔
بورژوا سیاست میں تبدیلی کے لیے مڈل کلاس کے روشن خیال سیاستدان اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظریاتی طور پر پختہ کار ہوں اور برسر اقتدار طبقات کی طاقت اور سازشوں کو سمجھتے ہوں۔ ان کا مقصد محض حصول اقتدار نہ ہو بلکہ وہ اس اقتصادی سیٹ اپ کو توڑنا اپنا اولین مقصد سمجھتے ہوں۔ پانامہ لیکس اسکینڈل کی وجہ سے اسٹیٹس کو کی نمایندہ جماعت مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور ان مشکلات سے نکلنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہے۔
عمران خان کا تعلق ایک مڈل کلاس خاندان سے ہے اور وہ عوام میں بوجوہ مقبول بھی ہیں اور نئے پاکستان کا نعرہ بھی لگا رہے ہیں لیکن نظریاتی حوالے سے وہ ناپختہ کار ہیں۔ نئے پاکستان کا نعرہ ایک مبہم نعرہ ہے جب تک وہ نئے پاکستان کی وضاحت نہیں کریں گے ملک کے اہل علم اہل قلم اہل دانش ان کی حمایت نہیں کرسکتے۔ منطقی طور پر جب نئے پاکستان کی بات کی جاتی ہے تو پرانے پاکستان کو سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے۔
پرانا پاکستان نظریاتی طور پر پسماندہ اور سیاسی طور پر اشرافیہ کی حکمرانی کا نمایندہ ہے۔ پرانے پاکستان میں عوام کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں، پرانے پاکستان میں اشرافیہ اقتدار اور سیاست پر قابض ہے بلکہ اسے اپنے باپ کی جاگیر سمجھتی ہے۔ پرانے پاکستان میں رائج سیاست میں قانون ساز اداروں میں وہی پہنچ سکتا ہے جو ارب پتی ہو اور الیکشن مہم پر کروڑوں روپے خرچ کرسکتا ہو۔
پرانے پاکستان میں غریب عوام انتخابات میں اشرافیائی نمایندوں کے حق میں ووٹ تو ڈال سکتے ہیں لیکن انتخابات میں بطور امیدوار شریک نہیں ہوسکتے۔ پرانے پاکستان میں اکثریتی دیہی علاقے وڈیروں اور جاگیرداروں کی ملکیت بنے ہوئے ہیں اور سیاست اور اقتدار پر حاوی ہیں۔
پرانے پاکستان کے اس تناظر میں نئے پاکستان کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ کچھ اس طرح کی ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے نئے پاکستان کی ابتدا زرعی اصلاحات سے ہونی چاہیے کیونکہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں ابھی تک جاگیردار اور وڈیرے مضبوط ہیں اور اب بھی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں۔ سیاست اور اقتدار پر اب بھی ان کی بالادستی قائم ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر نئے پاکستان کی پہلی ضرورت زرعی اصلاحات ہیں ہمارا انتخابی نظام صرف اشرافیہ کو قانون ساز اداروں میں بھیجنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ انتخابی نظام میں ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جو ایک عام لیکن اہل اور باصلاحیت آدمی کو انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی فراہم کرسکے۔
نئے پاکستان میں نئے نصاب تعلیم کی ضرورت ہوگی جس میں سائنس ٹیکنالوجی تحقیق اور دریافت کو اولیت حاصل ہو۔ نئے پاکستان میں تعلیم مفت اور لازمی ہوگی،نئے پاکستان میں ہر شعبہ زندگی کو جدید ترقی یافتہ دنیا سے ہم آہنگ کیا جائے گا، نئے پاکستان میں ترقی کا مطلب عوام کے معیار زندگی میں قابل ذکر اضافہ ہوگا۔
نئے پاکستان میں مزدوروں اور کسانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے قانون ساز اداروںمیں نمایندگی حاصل ہوگی۔ نئے پاکستان میں بیورو کریسی غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہل افراد پر مشتمل ہوگی۔ یہ وہ ابتدائی اقدامات ہیں جس پر نئے پاکستان کی عمارت کھڑی ہوگی، اگر مڈل کلاس کا کوئی سیاستدان نئے پاکستان کی وضاحت مندرجہ بالا نکات پر کرتا ہے تو عوام 2018ء کے الیکشن میں اس کی حمایت کرکے اسٹیٹس کو کو توڑ سکتے ہیں۔ کیا عمران خان نئے پاکستان کی اس شکل سے متفق ہیں؟