تحریر : ممتاز ملک
ایک بار پھر زلالت کی انتہاء پر کھڑے دہشت گرد معصوم زندگیوں سے کھیلنے میں کامیاب ہو گیا….. فرانس کے حسین اور پرامن شہر نیس میں ہمیشہ کی طرح ملک بھی بھر کے باقی علاقوں کی طرح ہر علاقے کے پارک میں سمندر کے کنارے کھلی جگہوں پر رات دس بجے کے بعد آتش بازی کا دلکش مظاہرہ کیا جا رہا تھا . فرانس میں جون جولائی اگست لمبے دن اور چھوٹی راتیں ، یا یوں کہیئے انیس گھنٹے دن اور پانچ گھنٹے کی رات رہتی ہے .دس بجے مغرب کے بعد جب سیاہی پھیلنے لگتی ہے تو چراغاں کے لیئے منتظر مردوزن اپنے ننھے منھے بچوں کو بچہ گاڑی میں بٹھا یا کندھے پر اٹھائے اپنے گھروں کے نزدیک زیادہ تر پیدل ہی پارکوں کا رخ کرتے ہیں۔
جہاں پہلے سے میونسپل کی جانب سے پولیس کے چاک و چوبند اہلکار تعینات کر دیئے جاتے ہیں جو ہر طرح سے راستوں کے بارے میں یا کسی مدد کی ضرورت ہو تو بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب و ملت آپ کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور آپ کی رہنمائی کرتے ہیں . ایسی ہی ایک خوبصورت شام لوگ جوق در جوق فرانس کے قومی دن 14 جولائی کی خوشی میں شامل ہونے کے لیئے پارک کا رخ کر رہے تھے۔
آتش بازی کا حسین مظاہرہ دیکھتے شرارتیں کرتے بچوں نے اور ان کے ماں باپ میں سے کسی نے یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ یہ ان کی زندگی کے آخری لمحات ہیں اور کوئی خبیث شیطان ان پر موت کا تاریک سایہ بنے ان کی تاک میں انہیں کے ساتھ مجمے میں موجود ہے ، جس نے نہ جانے کس وقت سڑک پر کھڑے 25 ٹن سے زیادہ وزنی ٹرالے کو سٹارٹ کیا اور لوگوں کے خوش گپیاں کرتے بچوں کو اٹھائے گیٹ سے باہر نکلتے دکھتے ہی ٹرالا ہجوم پر ستر کلو میٹر کی رفتار سے چڑھا دیا۔
نزدیک ترین لوگ تو فوری طور پر اس کے لپیٹے میں آگئے. چند لمحوں میں سڑک پر جان بچا کر بھاگنے والے معصوم لوگوں کے جسم کے لوتھڑے اور خون ٹپکاتی شاہراہ انسانیت کو شرمانے کو رہ گئی . ..ٹرالے کے آگے لگے ایک ایک ٹائر کی چوڑائی کم از کم ایک گز کے قریب ہوتی ہے .چار ٹائر آگے چار ٹائر بیچ میں اور چار ٹائر پیچھے لگے ہوتے ہیں . اور اگر اسے ایک گاڑی پر بھی چڑھا دیا جائے تو اس کا چورابنتے ایک آدھ منٹ ہی لگے گا . اس کے لپیٹے میں آئے ہوئے معصوم لوگوں اور بچوں کو زمین پر بچھے ہوئے لاشے بننے میں چند منٹ ہی کافی تھے۔
پولیس کے فورا حرکت میں آنے کے باوجود یہ سپیڈ اتنی تھی کہ چند منٹوں کے اندر ہی بہت زیادہ انسانی جانوں کا نقصان ہو چکا تھا . پولیس کے ٹرالر کے سامنے سے آکر براہ راست گولیاں چلانے پر وہ قاتل کتا اپنے انجام کو پہنچا دیا گیا. لیکن کتنے گھروں کو بیٹے بیٹیاں بچے اور ماں باپ سے ہمیشہ کے لیئے محروم کر گیا . کئی چراغ گل کر دیئے گئے. فوری طور پر نہ تو کسی کو کچھ سمجھ آئی اور نہ ہی کچھ سوچنے کا موقع ملا ایک شر پسند نے اب تک کی خبروں کے مطابق 85 انسانوں کا خون چاٹ لیا . اور سینکڑوں افراد شدید زخمی ہو گئے۔
دنیا میں کہیں بھی ہونے والا قتل افسوسناک ہے اور ہم اس کی بھر پور مزمت کرتے ہیں . فرانس ہمارا وطن ہے اس کے آنسو بھی ہماری آنکھ سے ٹپکتے ہیں . مرنے والوں سے ہمارا کوئی خونی رشتہ تو نہیں لیکن ہے تو درد کا رشتہ، محبت کا رشتہ اور احترام کا رشتہ ہے ہم لوگوں کو ان اموات کا اتنا ہی غم ہے جتنا اپنے کسی بے حد پیارے کی موت کا غم ہو سکتا ہے۔
خدا کے لیئے کوئی تو یہ دنیا بھر سے موت کا کھیل کھیلنے والوں کے ہاتھ روک دے، بلکہ توڑ دے ہر واقعے میں دل سے پہلی دعا یہ ہی نکلتی ہے کہ یا اللہ ایسا کرنے والا مسلمان نہ ہو اور پھر پاکستانی نہ ہو پاکستان پہلے ہی دنیا بھر میں بہت سے محاذوں پر اپنے آپ کو سرخرو کرنے میں مصروف ہے ایسے میں خدارا نظر رکھیئے. ہمارے بچے اب بڑے ہو رہے ہی یہ کن کی صحبت میں بیٹھتے ہیں ؟ یہ نیٹ پر کن دلچسپیوں میں مصروف ہیں ؟ کہیں یہ اپنی فیملی سے دور اور تنہائی پسند تو نہیں ہو رہے ؟ یہ کون سی کتابیں اور مواد پڑھ رہے ہیں کن مساجد میں کس کے زیر اثر ہیں؟۔
خاص طور پر اگر وہ عربی مساجد میں جا رہے ہیں تو اور زیادہ محتاط ہو جائیں . کہ کہیں یہ فرنچ زبان میں آسان بیان کے پیچھے داعش اور طالبان تو تیار نہیں کر رہے . کہیں نوجوان لڑکے لڑکیاں ان کا نیا شکار تو نہیں بن رہے. آپ جود اپنے بچوں سے کسی ملا سے بڑھ کر خود بہتر انداز میں بات کر سکتے ہیں۔
یاد رکھیں اللہ نے ایسی کوئی جنت نہیں بنائی جس تک پہنچنے کے لیئے کسی معصوم کے لاشے پر پاوں رکھنا پڑے . ایسا ہوتا تو اللہ اپنی مخلوق کو اپنی کتاب میں کبھی مخاطب نہ کرتا صرف مخصوص گروہ کو ہی مخاطب کرتا . بوجھل دل کیساتھ اور کچھ لکھنا ممکن نہیں دعاوں میں یاد رکھیئے۔
تحریر : ممتاز ملک