لاہور (ویب ڈیسک) سات چارٹر یونیورسٹیوں کے 23 سب کیمپسز کو غیر قانونی قرار دلوانے کے پیچھے مافیا بے نقاب ہو گئی ہے ۔تمام کارروائی صوبائی وزیر ہائیر ایجوکیشن پنجاب کے ساتھ غیر قانونی تعینات افسر اشتیاق احمد نے کی جو کہ صوبائی وزیر برائے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا دست راست اور غیر اعلانیہ پی ایس او بھی ہے۔
تفصیلات کے مطابق کے مطابق ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے سات پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے 23 سب کیمپسز میں داخلوں پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے منظوری تک ان کیمپسز کو تا حکم ثانی بند کرنے کا حکم دیا جس کے پیچھے کار فرما درپردہ کہانی بے نقاب ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی وزیر برائے ہائیر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں کا بکار خاص اشتیاق احمد جو کہ اس وقت ہائیر ایجوکیشن کمیشن پنجاب میں غیر قانونی تعینات ہے۔ مذکور نے ن لیگ کی ایک ایم پی اے حنا پرویز بٹ کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں اٹھائے گئے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے گجرات کیمپس کو غیر قانونی قرار دینے کے سوال پر یہ تنازعہ کھڑا کیا اور اس کیمپس کے سوال کے جواب کی بنیاد بنا کر سات بڑی یونیورسٹیوں کے سب کیمپسز کو بند کرانے کی سمری تیار کروا کے ایچ ای ڈی سے منظور کراکے ہزاروں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگادیا اور ان کیمپسز کو نوٹس دئیے بغیر بیک جنبش قلم غیر قانونی دلوادیا۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ اشتیاق احمد ہی ان سب کیمپسز کو بند کرانے کا محرک اور ماسٹر مائنڈ ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا تعلیم فروش مافیا بھی موجود ہے۔ سابق صوبائی وزیر تعلیم میاں عمران مسعود متذکرہ بالا آفیسر اشتیاق احمد سے خاص تعلقات رکھتے ہیں اور انہی کے ایماء پر اشتیاق احمد نے سات بڑے گروپس کی یونیورسٹیوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی حالانکہ خود میاں عمران مسعود کی یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیاء پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا تھا
ائیرلائن نے خاتون کا زبردستی ایسا ٹیسٹ لے لیا کہ جان کر خواتین بھی فضائی سفر کرنے سے کترائیں گی
اور اس کے کئی پروگرامز اور حیثیت کو بھی مشکوک اور غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ بعد ازاں دیگر غیر قانونی سب کیمپسز کو بھی لاہور میں کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اشتیاق احمد کو راجہ یاسر ہمایوں سے متعارف کرانے کا سہرا بھی میاں عمران مسعود کے سر ہے اور ایچ ای ڈی کو اپنے اشاروں پر نچا رکھا ہے اور ایک منصوبہ بندی کے تحت عالمی سطح پر تحقیق میں اہلیت رکھنے والے اداروں پر سوالات اٹھا دئیے گئے ہیں جس کا مقصد مال پانی بنانا ہے اور اشتیاق احمد نامی یہ شخص اسی مافیا کی آشیر باد سے یہ کام کروا رہا ہے جس سے تعلیم جیسے مقدس پیشے سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اسی مافیا کے ایک خود ساختہ دانشور نے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے معتبر مالک کو اپنے ایک کالم میں ذاتی نشا نہ بنا کر مذ مو م مقاصد بھی حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ یاد رہے کہ صوبائی وزیر ہائیر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں کا درپردہ پی ایس او اشتیاق احمد گذشتہ 10 سالوں سے زائد غیر قانونی طور پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں تعینات ہے اور اس کی من مانیاں زبان زدعام ہیں۔ موصوف صوبائی وزیر کی غیر موجودگی میں کئی یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ اجلاسوں کی صدارت بھی کرتا رہا ہے جب کہ راجہ یاسر ہمایوں نے اپنا امیج برقرار رکھنے کے لئے اس کو یونیورسٹی آ ف ایجوکیشن بھجوا یا
تاہم اس نے اپنی تیعنا تی پی ا یچ آئ سی کروا لی اور اب ارفع کریم ٹا و ر میں
PITB
میں ایک ٹھا ٹھ باٹھ والا دفتر لے رکھا ہے جہاں سارے معاملات طے کیے جاتے ہیں ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گورنر پنجاب نے بھی اشتیاق احمد کے خلاف شکایات کا نوٹس لیا۔ تاہم اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ بعد ازاں اساتذہ کی کئی تنظیموں نے بھی اس کی شکایات درج کرائیں مگر یہ بدستور کام کررہا ہے حالانکہ اشتیاق احمد کی تقرری کے احکامات یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں کام کرنے کے ہیں مگر یہ کمال ہوشیاری سے پی ایچ ای سی میں کام کررہا ہے اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی ساکھ کو تبا ہ کر رہا ہے ۔ اور حالیہ واردات بھی موصوف نے ایچ ای ڈی میں ایک بار پھر مال بناؤ مہم کا حصہ کے تحت ڈلوائی ہے اور دوسری جانب ہائیر ایجوکیشن مافیا سے جڑے دیگر مہروں کو بھی اس کا فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ متذکرہ غیر قانونی قرار دی جانے والی یونیورسٹیوں کے سب کیمپسز کے طلبہ نے وزیراعلیٰ پنجاب سے معاملہ کی انکوائری کی استدعا کی ہے جبکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے مطالبہ کیاہے کہ وہ ریاست مدینہ کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اشتیاق احمد ایسے کرپٹ افسران کے خلاف سخت کارروائی کریں تاکہ پنجاب میں کرپٹ ایجوکیشن مافیا کو بے نقاب کرکے ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔