اسلام آباد(یس اردو نیوز) حنا ربانی کھر نے بجٹ سیشن میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس دو راستے ہیں یا تو ہم نمبرز کی ہیر پھیر پربات کریں یا پھر حقیقی اعدادوشمار پر گفتگو کریں۔ حالیہ بجٹ کو ایک غیر حقیقی قرار دیا جاچکا ہے۔ کیا تحریک انصاف میں شمولیت کا معیار یہ ہے کہ ہم حساب، جغرافیہ وغیرہ سب بھول جائیں۔ تحریک انصاف والے کہتے ہیں نواز شریف نے 35 سال حکومت کی جبکہ انھوں نے صرف 19 سال حکومت کی ۔ اس ایوان کو سنجیدہ لیں ۔جب آپ جھوٹ بولتے ہیں تو ایوان میں موجود ہربندے پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ آپ نے اس قوم کو جواب دینا ہے ۔ آپ اس قوم کو جاہل کہتے ہیں ۔ جبکہ جہالت حکومت خود پھیلا رہی ہے۔ کوویڈ فلو ہے، گرمی میں ختم ہوجائےگا یہ جہالت حکومت نے خود پھیلائی جبکہ اب حقائق کچھ اور سامنے آرہے ہیں اور حالات زیادہ خراب ہوتے جارہے ہیں۔ جو سب کو آئینہ دکھانا چاہتے ہیں انھیں خود آئینہ دیکھنا چاہیے۔ پاکستان کو روک دیا گیا۔ کیا ملک کے مستقبل کیلیے تعلیم ضروری نہیں۔ ہائی ویز جوکہ پیپلز پارٹی نے بنائے ان کا نام بدل دیا گیا۔ بے نظیر انکم سپورٹ کا نام بدل کر احساس پروگرام رکھ دیا گیا۔ یہ حکومت صرف مایوسی پھیلا رہی ہے۔ پاکستان کے حالات کبھی بھی اچھے نہیں رہے مگر ایک امید باقی رہہی مگر اب تو لوگوں کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ باربار کہا جاتا ہے وزیراعظم ہینڈسم ہے وہ بہت اچھا دکھتا ہے۔ مگر اس کی دوسالہ کارکردگی بدترین ہے۔ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتے ہوئے ہم امید پھیلا رہے ہیں جبکہ حکومت مایوسی پھیلا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سوشل سیکورٹی کا جال بچھایا۔ جس کو تھوڑا سا ردوبدل کر کے حکومت اپنے نام سے پھیلانا چاہتی ہے۔ بی آئی ایس پی کو بدل کر کہا جارہا ہے کہ حکومت نے بہت بڑا معرکہ مارلیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے تاریخی اغلاط کو درست کیا آغاز حقوق بلوچستان شروع کیا۔ جبکہ حکومت تاریخی اغلاط میں اضافہ کر رہی ہے۔ پوری دنیا میں ملکوں میں استحکام پالیسیوں سے آتا ہے جوکہ اعتماد اور کرنے کی قابلیت سے آتا ہے ۔جبکہ حکومت جوکہتی ہے وہ کبھی بھی کر کے نہیں دکھایا ۔ قرضے نہیں لیں گے خودکشی کرلیں گے۔ مگر کیا ہوا اب لوگوں کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ جن لوگوں نے پاکستان پر کالا دھبہ لگایا جب ہم نے سلالہ میں پاک فوج پر حملہ ہوا ہم نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے دیکھنا شروع کیا۔ امریکہ کی مخالفت کے باوجود ہم سیکورٹی کونسل کے غیر مستقل ممبر بنے۔ انڈیا نے کشمیر میں سب کچھ ختم کردیا جبکہ ہماری حکومت نے اسی مودی کو ووٹ دیدیا۔ اس پر بھی یہ بیانات دیے جارہے ہیں کہ ہندوستان تنہا ہوچکا ہے۔ جبکہ 184 ووٹ لینے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ وزیرخارجہ ڈکشنری تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟ لیکن حقیقت میں کشمیر میں انسانی حقوق کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ دینے والے ملکوں کو مایوس کیا گیا ہے۔آج آپ موڈیز اورفنانشل ٹائمز کا حوالہ دیتے ہیں۔ سائنس اورحکمت کی ترویج ہونی چاہیے جبکہ حکومت کنفیوژن پھیلا رہی ہے۔ بجلی کے شعبے میں اصلاحات کرنے کا کہا گیا ۔ دوسری حکومتوں کے ہوتے ہوئے بل جلائے گئے۔ مگر موجودہ حکومت نے جس قدر بجلی کے نرخ بڑھائے ہیں پچھلے دس سال میں نہیں بڑھائے گئے۔ نیپرا کی نااہلی کا خمیازہ صارفیین بھگت رہے ہیں۔ حکومت نے بیروزگارلوگوں کیلیے کچھ نہیں کیا۔ جبکہ ابھی کوویڈ کے اثرات آنے ہیں۔ حکومت نے بجٹ خسارے کی تمام تر ذمہ داری کوویڈ19 پر ڈال دی ہے۔ پاکستانی لوگ مر رہے ہیں۔ ان کی نوکریاں ختم ہورہی ہیں۔ لوگوں کے کاروبار تباہ ہورہے ہیں جبکہ حکومت نہ صرف اپنا مذاق بنوا رہی ہے بلکہ ہم سب کا مذاق بنوا رہی ہے۔ حکومت کوویڈ کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔ جوکہ سفید جھوٹ ہے۔ پوری دنیا میں پٹرول مارکیٹ کریش کرچکی ہے ۔ اس وقت کا فائدہ عوام تک پہنچانے کے بجائے پٹرولیم لیوی کے ذریعے عوام سے پیسے نکالنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ ٹیکس کے جو ٹارگٹ حاصل ہی نہیں کیے گئے۔ اس پر بھی عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ بجٹ توہمات پر مبنی ہے۔ کوئی طریقہ نہیں کہ اس بجٹ کو اچھا بجٹ کہا جاسکے۔ ہرضرورت اورآفت کیلئے فنڈنگ حاصل کرنا حکومت کا مشغلہ ہے۔ ڈیم، کے بعد کوویڈ کیلئے بھی تباہ حال عوام سے فنڈ مانگ لیے گئے۔ بجٹ میں کوئی ویژن نہیں ہے۔ حکومت سے کوئی سوال کیا جائے تو ایک ہی جواب ملتا ہے ماضی میں بہت کرپشن ہوئی۔ جبکہ ماضی میں بہت اچھا بھی ہوا ان کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی نے سندھ میں دنیا کے بہترین ہسپتال اور ہائی ویز بنائیں۔ مسلم لیگ ن نے پاکستان کا انفراسٹرکچر بہتر کیا۔ مگر بلوم برگ کے آرٹیکلز لوگوں کو بتائے جارہے ہیں تاکہ انھیں بیوقوف بنایا جاسکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں ممبران اسمبلی کیلیے فنڈ رکھے تاکہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کراسکیں۔ جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے ممبران اسمبلی کے فنڈز روک رکھے ہیں۔ کیا یہ لوگ خود کو صرف الیکٹڈ سمجھتے ہیں۔ جسے یہ لوگ کرپشن سمجھتے کہتے رہے اب وہی کر رہے ہیں۔ ایچ ای سی کے بجٹ کو کم کر دیا گیا۔ وہ لوگ اپنے لوگوں کو تنخواہیں دینے کے قابل نہیں رہے۔ تحریک انصاف کا مقابلہ ہمارے ساتھ نہیں بلکہ اپنے ساتھ ہے ۔یہ لوگ جو کر رہے ہیں اس کے خود ذمہ دار ہیں۔ روپے کو گرایا گیا قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے پرتنقید کرنے کے بجائے ڈلیور کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ میں تیسری دفعہ پارلیمنٹ کا حصہ ہوں مگر کبھی نہیں دیکھا کہ خزانہ کے بنچوں کی طرف سے اتنی گراوٹ دیکھی گئی ہو۔ شور مچایا گیا ہو۔ مجھے فخر ہے کہ میں مظفر گڑھ سے ہوں اور مجھے اپنے ملک کی نمائندگی کا موقع ملا۔ ہمارے جنوبی پنجاب میں کسانوں کے ساتھ بہت براسلوک کیا جارہا ہے۔ ان کو سبسڈیز نہیں دی جارہیں مگر صنعتکاروں کو ان کا حق تقیسم کردیا جاتا ہے۔