تحریر : محمد فہیم شاکر
ہندو مذہب کا بانی کوئی ایک شخص نہیں، ہندو ازم میں ہمیں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ملتا جس کو ہندو ازم کا بانی یا مرکز کہا جا سکے یا جس کو ہندووں کے مذہبی نظام میں مرکزیت حاصل ہو، اس طرح ہندووں کی مذہبی کتابوں کو بھی کسی ایک شخص کی جانب منسوب نہیںکیا جا سکتا، ہندو مذہب کے ابتدائی مدارج پہ لاتعداد شخصیات کا ٹھپہ لگا ہوا ہے چونکہ ہندووں کے مذہبی نظام کی تشکیل میں لاتعداد اشخاص کا حصہ ہے اس لئے اس میں کوئی ایک عقیدہ نہیں، مذہبی قوانین و رسوم و شعائر کی عدم یکسانیت، عقائد کی بو للعجبی ،طریقِ عبادت کے اختلاف اور معبودوں کی کثرت کے باعث یہ مذہب ایک گنجان جنگل کی مانند ہے جس میں ہزاروں راستے ہیں لیکن کو ئی راستہ صاف اور سیدھا نہیں ۔برصغیر کے حوالے سے یہاں یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ سکندر اعظم کے یونانی جانشینوں کے عہد میں بہت سے ایرانی ایشیاء میں آکر بس گئے تھے جو سورج کی پوجا کرتے تھے اور برہمنوں نے انہیں اپنے نظام میں شامل کر لیا ،انہی کے اثر سے ہندوستان میں سورج اور آگ کی پوجا کا آغاز ہوا۔
ہندو مذہب کی بے یقینی صورتِ حال کا صحیح منظر پنڈت جواہر لال نہرو(1889-196) کی رائے سے عیاں ہوتا ہے ۔وہ اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ”ہندو مت کے دائعے میں بے حد مختلف اور بعض اوقات متضاد خیالات و رسول داخل ہیں ،اسی لئے اکثر کہاجاتا ہے کہ ہندو مت پر صحیح معنوں میں لفظ مذہب کا اطلاق نہیںہوتا”( نہرو، جواہر لال، این آٹوبائیو گرافی، لندن، 1936) پنڈت نہرو اپنی ایک اور کتاب “Discovery of India” میںہندو ازم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے :۔”ہندوازم بحیثیت ایک عقیدے کے بالکل مبہم ، غیر متعین اور بہت گوشوں والا واقع ہوا ہے جس میں ہر شخص کو اس کے مطلب کے مطابق بات مل جاتی ہے ، اس کی جامع اور مکمل تعریف کرنا ممکن نہیں ، حتمی طور پر یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ آیا یہ کوئی مذہب ہے بھی یا نہیں ، یہ اپنی موجودہ شکل و صورت میں بہت سے عقائد و رسوم کا مجموعہ ہے”( نہرو جواہر لال، دی ڈسکوری آف انڈیا ، نیو یارک 1946) ہندوں کی کوئی تاریخ کہیںبھی محفوظ نہیں اور جس قوم کی تاریخ محفوظ نہیں رہتی اس کا قومی تشخص بھی باقی نہیں رہتا،
مورخین کی تحقیق کے مطابق 1200ء سے پہلے ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں ایسی کوئی قابل ذکر کتاب نہیں ملتی جس کو تاریخ کی کتاب کہا جا سکے یاکوئی ایسی کتاب جس سے اس ملک کے تاریخی حالات معلو م ہو سکیں ۔ہندو دھرم کی تمام عمارت انسانی تفریق ، چھوت چھات اور توہمات پر کھڑی ہے ،جس کا بنیادی پتھر ذات پات کا ناقابلِ تقسیم اور باقابلِ تنسیخ نظام ہے جبکہ عقائد اس میں قانونی حیثیت رکھتے ہیں۔ہندومذہب کے مطابق یہ قوم چار ذاتوں پر مشتمل ہے 1: برہمن: جو برہما کے سر سے پیدا ہوا ، سر چونکہ جسمکا سب سے افضل اور بہتر حصہ ہوتا ہے ، اس لئے یہ قوم پیدائشی طور پر سب انسانوں سے افضل اور برتر سمجھی جاتی ہے۔ 2: کھشتری: جو برہما کے بازووںسے پیدا ہوا 3: ویش: جو برہماکے پیٹ سے پیدا ہوا 4:شودر: جو برہما کے پاوں سے پیدا ہوا۔ ہندو مذہب میں چھوت چھات کا کس قدر عمل دخل ہے آپ اس بات کا اندازہ اس سے ہی لگا لیں کہ وہ اپنی قوم کے چوتھے درجے کے ہندو یعنی شودر سے کیا سلوک کرتے ہیں
اب آئییالبیرونی کی معروف کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ کرتے ہیں جس سے یہ امر واضح ہوجائے گا کہ برصغیر میں دو قومیں آباد تھیں جن کو بالآخر دو قومی نظریے کی بنیاد پر الگ الگ وطن کی کی ضرورت شدت کا شدت سے احساس ہوا۔البیرونی(973-1048): البیرونی جو 1020کے لگ بھگ ہندوستان آئے ، اپنی کتاب ” کتاب الہند ” میں ہندووںکے مسلمانوں کے ساتھ سلوک اور برتاوپر لکھتے ہیں :۔ ”مسلمانوں کو یہ لوگ ملیچھ (ناپاک) کہتے ہیں اس وجہ سے یہ مسلمانوں سے ملنا، جلنا، شادی بیاہ کرنا، مل کر بیٹھناقریب رہنا، اور ان کے ساتھ کھانا جائز نہیںسمجھتے،اگر کسی مجبوری کے تحت مسلمانوں کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑ جائے تو اپنے ہاتھ پر رومال لپیٹ کر مصافھہ کرتے ہیں ، صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف ہندووں کے دل میں جو نفرت کا لاوا پک رہا تھا، یہ سب کچھ اس کا نتیجہ تھا کہ ہندو ، مسلمانوںکو تکلیف پہنچانے ، ذلیل و خوار کرنے، اپنے سے نفرت کی وجہ سے دور رکھنے اور قتلو غارت سے نیست و نابود کرنے کو ایک مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں ”(کتاب الہند، مترجم سید اصغر علی،الفیسل لاہور، 1994صفحہ 6)
حقیقت یہ ہے کہ مذہب اسلام کی بنیاد، خدا کے صحیح تصور اور اس کی توحید پر ہے، ظاہر ہے کہ جو مذہب انسانی دماغ کی تخلیق ہو یا جن الہامی مذہاب میں انسانوں نے ذاتی مفاد کی خاطر تحریف کر دی ہو ،ان میں خدا کا تصور ذہن انسانی کاتراشیدہ ہوگا اور چونکہ ذہن انسانی محسوسات سے آگے نہیں بڑھ سکتا ، اس لئے انکا تخلیق کردہ خدا بھی اسی قالب میں ڈھلا ہواہوگا۔ہندومذہب میں سانپوں کی پوجا، بانجھ گائے کے بالوںاور کھروں کو سجدہ، گھوڑوں اور گھوڑوں کے مالکوںکو سجدہ ، نئی کے استرے اور سردی سے چڑھنے والے بخار کو سجدہ کرنے کی تلقین موجود ہے جبکہ دوسری طرف اسلام ایک آفاقی دین ہے، جو ایک الہ کو ماننے اور اسی کے سامنے جھکنے اور اسی سے مناجا تکرنے کی تلقین کرتا ہے،
یہی وہ دو قومی نظریہ تھا جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کوایک الگ وطن بنانے کی مہمیز اور تحریک دی ، اور نالآخر پاکستان ایک الگ وطن کی شکل میں آج ہمارے پاس موجود ہے ،اور آج جبکہ ہمسائے ملک کی طرف سے پاکستان میں ہر طرف افراتفری اور بد امنی کا دور دورا کر دیا گیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک کو لا الہ الا اللہ کا ملک بنا دیا جائے اور قیام پاکستان کے جذبے اور ولولے دوبارہ تازہ کر دیے جائیں۔
تحریر : محمد فہیم شاکر